حکومت سیالکوٹ کی برق رفتار ترقی میں نجی شعبے کی مدد کرے، اشرف ملک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Govt must support private sector in rapid development of Sialkot: President SCCI

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیالکوٹ :ای ایف پی کے اسماعیل ستار،اشرف ملک ،ذکی احمد خان، مجید عزیز، سلومین راجبانشی، ظہور اعوان نے کہا ہے کہ حکومت سیالکوٹ کی برق رفتار ترقی میں نجی شعبے کی مدد کرے،سیالکوٹ رول ماڈل ہے،ملک کے دیگر شہر بھی تقلید کریں۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر اشرف ملک نے کہا ہے کہ حکومت کو سیالکوٹ کی برق رفتار ترقی میں نجی شعبے کی مدد کرنے کی ضرورت ہے مگر وفاقی یا صوبائی دونوں حکومتیں سات اہم برآمدی شعبوں کا اہم مرکز ہونے اورخاص اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود مالی وسائل مہیا نہیں کر رہی۔

سیالکوٹ کے نجی شعبے نے سڑکوں کی مرمت، ایئرپورٹ کی تعمیر، مزدوروں کے بچوں کے لیے اسکول بنانے کے لیے اپنے فنڈز دیے اور اب وہ ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال قائم کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے مستقل سوال یہ ہے کہ اگر نجی شعبہ سیالکوٹ کو ترقی دینے اور وسیع تعداد میں روزگار فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے تو پھر حکومت علامہ اقبال کے اس شہر کے لیے کیوں کچھ نہیں کررہی؟۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) کے زیر اہتمام ایس سی سی آئی اور آئی ایل او کے اشتراک سے چائلڈ لیبرکے خلاف عالمی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پرصدر ای ایف پی اسماعیل ستار،آئی ایل او اسلام آباد کے انچارج سلومین راجبانشی، سابق صدر ای ایف پی مجید عزیز، نائب صدر ذکی احمد خان، جنرل سیکریٹری پاکستان ورکرز فیڈریشن ظہور اعوان، ڈائریکٹر ای ایف پی طاہر جاوید ملک،آفس انچارج ای ایف پی سید نذر علی،ایڈوائزر و کنسلٹنٹ فصیح الکریم صدیقی، صدر پنجاب پی ڈبلیو ایف چوہدری نسیم اور ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر سیالکوٹ اسد علی نے بھی خطاب کیا اور صنعتی تعلقات اور انسانی وسائل کی ترقی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

اشرف ملک نے بعض عناصر سمیت کچھ مقامی اور غیر ملکی این جی اوز کو تنقید کا نشانہ بنایا جوغیر ملکی فورمز پر پاکستان کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے سرکاری اداروں کی تعداد کم کرنے کا مطالبہ کیا جو صنعتوں کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انہوں نے ای ایف پی اور پاکستان ورکرز فیڈریشن آف لیبر ویلفیئر باڈیز کی نگرانی کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ شفافیت برقرار رہے اور بدعنوانی پر قابو پایا جاسکے۔

ای ایف پی کے صدر اسماعیل ستار نے کہا کہ ای ایف پی چائلڈ لیبر کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہے اور سیالکوٹ کے صنعت کار اپنے پلانٹس میں چائلڈ لیبر کے خاتمے پر تعریف کے مستحق ہیں۔

انہوں نے معیشت خصوصا مینوفیکچرنگ سیکٹر پر حکومت کی مزید توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویزدی کہ باالخصوص صحت، تعلیم، اسکل ڈیولپمنٹ اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے ایک مضبوط فاؤنڈیشن کا قیام انتہائی ضروری ہے تاکہ نوجوان اعتماد کے ساتھ صنعتوں میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیالکوٹ کے آجر اور ورکرز پورے پاکستان کے لیے ایک ماڈل ہیں اور دوسرے شہروں کو سیالکوٹ ماڈل کی تقلید کرنا چاہیے۔ انہوں نے برآمدات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ کرونا کے مہلک مرض سے پیدا ہونے والی سنگین معاشی بحران کے دوران بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، کمبوڈیا وغیرہ کی برآمدات میں نمایاں کمی ہوئی ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

آئی ایل او اسلام آباد کے انچارج سلومین راجبانشی نے کہا کہ کورونا کے وبائی مرض کی وجہ سے وقت بہت کٹھن ہوگیا تھا لیکن اس بحران کے باوجود استحکام برقرار رکھنے میں وہ پاکستانی آجروں اور کارکنوں کے عزم کو سلام پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے ای ایف پی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کی طویل بندش سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اس صورتحال پر قابو پانا چاہیے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یورپی یونین کے دیے گئے جی ایس پی پلس کا درجہ چائلڈ لیبر کے خاتمے سمیت بین الاقوامی لیبر معیارات کی مکمل تعمیل پر مشتمل ہے۔

سابق صدر ای ایف پی مجید عزیز نے کہ انہوں نے سیالکوٹ کی کئی فیکٹریوں کا دورہ کرتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے کہ سیالکوٹ کے صنعت کار پیداواری صلاحیت میں اضافے، بین الاقوامی لیبر معیارات کی تعمیل، کارپوریٹ سماجی ذمہ داری بڑھانے اور معیاری برآمدات پر توجہ دینے کے لیے پرعزم ہیں جو کامیاب صنعت کاری کا نسخہ ہے۔

سیکریٹری جنرل پاکستان ورکرز فیڈریشن ظہور اعوان نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے خاتمے سمیت تمام معیارات پر عمل پیرا ہونے کے لیے سوشل ڈائیلاگ ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: ای ایف پی کا سیسی بورڈ سے نمائندگی ختم کرنے پراحتجاج، دیگرکمیٹیوں سے دستبردار ہونے کی دھمکی

ای ایف پی اور پی ڈبلیو ایف ”بہتر کام پروگرام“ متعارف کروانے کے لیے آئی ایل او اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جس سے پیداواری صلاحیت میں اضافے، کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے اور پاکستانی برآمد کنندگان کو عالمی برانڈز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔

Related Posts