خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد پاکستان واپسی کا فیصلہ کرنا نواز شریف کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن ان کی وطن واپسی کے بعد اب پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ گزشتہ ماہ ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت کے بعد منگل کو نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی بری کر دیا گیا۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں ڈویژنل بنچ نے مختصر فیصلہ سنایا۔ عدالت نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے کیس واپس ٹرائل کورٹ بھیجنے کی استدعا بھی مسترد کر دی اور کیس کی سماعت میرٹ پر کی۔ منگل کی سماعت میں نواز شریف کے وکیل نے روسٹرم پر آکر کہا کہ وہ اپنے موکل کے لیے دلائل دینا چاہتے ہیں۔ دو رکنی بنچ نے پھر استفسار کیا کہ کیا قومی احتساب بیورو نے نواز شریف کے زیر کفالت افراد کے حوالے سے کچھ ثابت کیا؟
مسلم لیگ ن کے قائد کو پانچ سال قبل کیس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد عدالت نے ان پر ڈیڑھ ارب روپے جرمانہ عائد کیا۔73 سالہ نواز شریف کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا سنائی تھی تاہم گزشتہ ہفتے انہیں آئی ایچ سی نے ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر 1.5 بلین روپے اور 25 ملین امریکی ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ عدالت نے نواز شریف کو 10 سال کے لیے عوامی عہدہ رکھنے کے لیے بھی نااہل قرار دیا تھا۔
اب نواز شریف ان دونوں مقدمات سے بری ہو چکے ہیں جن پر انہیں پہلے سزا ہوئی تھی۔ اب ان کے لیے صرف آرٹیکل 63 کے تحت ان کی نااہلی ہی رکاوٹ ہے کیونکہ سپریم کورٹ سیاستدان کی نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے لیے کیس کی سماعت کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے، نواز شریف کو سپریم کورٹ سے بھی ریلیف ملے گا اور اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی شیڈول جاری کرے گا، لیکن مستقبل قریب میں نہیں، لیکن ان کی نااہلی کی مدت کا فیصلہ انتخابات سے قبل جلد ہو جائے گا۔