اقتصادی سروے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ فیصلہ کن لمحہ ہے کیونکہ مخلوط حکومت آج وفاقی بجٹ پیشکرنے والی ہے،یہ بجٹ آنے والے سال میں ہم جس راستے پر چل رہے ہیں اس کی راہ ہموار کرے گا۔ حکومت نے معیشت کا سروے جاری کیا جس میں معیشت کی تنزلی کے دعوؤں کے باوجود تقریباً چھ فیصد کی بلند شرح نمو ظاہر ہوتی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقتصادی سروے نے پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی کی توثیق کی ہے کیونکہ معیشت انہیں ہٹائے جانے سے پہلے درست سمت میں جا رہی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ مخلوط حکومت نے اقتدار میں آنے کی سازش کیوں کی جب وہ معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کوئی نئی حکومت پچھلی حکومت کی معاشی کارکردگی پیش کر رہی ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق، پاکستان نے پچھلے سال میں دوبارہ ترقی کی اور 5.97 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو کے ذریعے V کی شکل کی بحالی کو برقرار رکھا۔ پھر بھی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ اعلیٰ نمو نے تجارتی خسارے اور ادائیگیوں کے توازن کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت دو ماہ سے بھی کم وقت کے باوجود وفاقی بجٹ کا کریڈٹ مانگے گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کے باعث استحکام آیا ہے اور مالی بحران ٹلا ہے، لیکن انہوں نے ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے حالانکہ یہ فیصلے غیر مقبول ہیں اور اس کے سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ملک ایک بار پھر نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے قرضوں کی اشد ضرورت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے میں تاخیر ہوئی ہے۔ موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو منفی کر دیا ہے اور کثیر الجہتی ایجنسیوں اور بیرونی ممالک سے قرضے حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کے پاس چینی کمرشل بینکوں سے قرض لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

حکومت اگلے سال تک اقتدار میں رہنے کی امید رکھتی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوسکا تو اقتصادی کارکردگی اگلے انتخابات سے پہلے اہم ہو جائے گا، حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال ترقی کی شرح عالمی بینک کے دعوؤں کے برعکس زیادہ رہے گی،جس کی پیش گوئی 4 فیصد ہے۔ اس نے جمود (معاشی جمود اور افراط زر) سے بھی خبردار کیا ہے جو بے روزگاری کا باعث بن سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت کوئی ایسا بجٹ پاس کرے گی جو عوام کے لیے فائند ہ مند ہو۔