کیا ساس، سسر کا خیال رکھنابہو کی ذمہ داری نہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا ساس، سسر کا خیال رکھنابہو کی ذمہ داری نہیں؟
کیا ساس، سسر کا خیال رکھنابہو کی ذمہ داری نہیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج سوچا کہ سیاست سے ہٹ کر سماجی حوالے سے بلاگ لکھا جائے۔ ایک موضوع جس پر کچھ دنوں سے مختلف سوشل میڈیا تحریریں لکھی جا رہی تھیں، وہ شادی کے بعد لڑکی کی ذمہ داری کے حوالے سے ہے۔

بنیادی سوال کیا ہے ؟
کیا لڑکے کے ماں باپ کی خدمت ، ان کا خیال رکھنا اس لڑکے کی بیوی یعنی بہو کی ذمہ داری ہے یا نہیں؟
اس حوالے سے ایک دلچسپ موقف بعض علما دین خاص کر مولانا طارق جمیل جیسے داعی اپناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شریعت میں یہ خدمت بیوی کی ذمہ داری نہیں، یہ اس پر فرض نہیں ہے۔
شرعی پوزیشن ہے کیا ؟

جو علما یہ بات کہتے ہیں ، اصولی طور پر ان کی بات درست ہے ۔ شریعت میں کہیں پر بیوی کی یہ ذمہ داری نہیں مقرر کی گئی ۔ یعنی اسے بیوی پر فرض نہیں کیا گیا۔ شریعت اس کا مجاز مرد یعنی بیٹے کو ٹھیراتی ہے،بنیادی طور یہ اس کی ذمہ داری ہے۔

یہ اسلامی شریعت کی خوبصورتی ہے کہ چودہ سو سال پہلے کے انتہائی میل ڈومینیٹڈ معاشرے میں بھی خاتون خانہ کو کس قدر ریلیف دیا گیا اور اس پر یہ بوجھ نہیں ڈالا، بلکہ اپنے بچے کو دودھ پلانے کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ وہ چاہے تو اپنے خاوند سے اسے کے بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ طلب کر سکتی ہے۔

یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شریعت جہاں بیوی پریہ فرض عائد نہیں کرتی ، وہاں اس کی حوصلہ شکنی بھی نہیں کرتی۔ شریعت یہ نہیں کہتی کہ بیوی کو ہرگز اپنے سسرال اور خاص طور سے بوڑھے ساس سسر کی خدمت نہیں کرنی چاہیے ۔

شریعت یعنی قرآن وسنت کے احکامات میں بہت سی جگہوں پر صلہ رحمی کی ہدایت ہے،یعنی اپنے عزیز واقارب کا خیال رکھنے کا حکم۔ قطع رحمی یعنی رشتہ اور تعلق توڑنے سے سختی سے منع کیا گیا۔ جبکہ ضعیف افراد کا خیال رکھنے اور ان سے حسن سلوک کے احکامات الگ سے ہیں ۔

بعض علما کے مطابق والدین کے حقوق اور ان کے ساتھ بہت اچھا تعلق رکھنے، ان کی کسی غلطی پر اف تک نہ کرنے کے احکامات کے دائرہ کار میں ایک طرح سے لڑکے اور لڑکی دونوں کے والدین آ جاتے ہیں کہ والدین تو والدین ہی ہیں۔

صرف بیوی نہیں بلکہ خاوند(مرد)کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ساس سسر کا خیال رکھے، ان سے حسن سلوک سے پیش آئے اور کسی زیادتی پر صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرے۔

یہاں پر ایک مشہور حدیث کا حوالہ دینا بے محل نہیں ہوگا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے بارے میں پتہ چلا کہ کچھ دن پہلے انہوں نے شادی کی ہے، مگر کسی نوجوان لڑکی کے بجائے ایک پختہ کار خاتون کا انتخاب کیا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا گیا(جس کا مفہوم لگ بھگ یہ ہے)،تم اپنی کسی ہم عمر لڑکی سے شادی کرتے، وہ تم سے کھیلتی ، تم اس سے کھیلتے یعنی دونوں ایک دوسرے سے لطف اٹھاتے۔

ان صحابی نے جواب دیا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میری چھوٹی بہنیں ہیں، اسی لئے ایک پختہ اور سنجیدہ عمر خاتون سے رشتہ کیا ہے تاکہ وہ میری چھوٹی بہنوں کی اچھی تربیت کر سکے، انہیں گھر داری سکھا سکے وغیرہ۔ اس مدلل جواب پر مزید کچھ نہیں فرمایا گیا۔ اس واقعے سے یہ ظاہر ہوا کہ اپنی بہنوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے حوالے سےبیوی کی ذمہ داری اور ایک خاص رول ہوسکتا ہے۔

علما یہ بات کیوں کہتے ہیں؟

یہاں پر ایک نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے جیسے نیم خواندہ معاشروں میں جہاں دینی تعلیم اور شعور بھی نہ ہونے کے برابر ہے ، جہاں دیہی سماج میں خاص طور سے خواتین کی زندگیاں زیادہ مشکل ہیں،وہاں ان کے مسائل دیکھتے ہوئے ہمارے علما کرام مردوں کو حسن سلوک کی ترغیب دینے کی خاطر یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ تمہارے ماں باپ کی خدمت کرنا تمہاری بیوی پر فرض نہیں۔

مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر بیوی خدمت اور دیکھ بھال کر رہی ہے تواس کے لئے خاوند ممنون ہو اور اس کی تالیف قلب کے لئے کچھ ایکسٹرا کیئر کرے، اس کا خیال رکھے، سراہے، اس کا ہاتھ بٹائے، افورڈ کر سکتا ہے تو ملازمہ وغیرہ رکھ دے تاکہ اس کی دیگر خانگی ذمہ داریاں کم ہوسکیں۔

مولانا طارق جمیل یا کسی دوسرے عالم دین کے ایسا کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ بیویاں بے دید، بے مروت، بے لحاظ اور شقی القلب ہوجائیں۔ بوڑھے ساس سسر بھوکے بیٹھے ہوں اور بہو انہیں کچھ کھلانے کی زحمت ہی نہ کرے کہ بیٹا رات کو آئے گا تو کچھ کرے، میں تو نہیں کروں گی۔

یہ رویہ ہرگز مطلوب نہیں نہ ایسی باتیں اس طرح کے طرزعمل اپنانے کے لئے کی جاتی ہیں۔

چند کامن سوالات اور ان کے جواب

سوال : اگر شریعت بیوی پر ساس سسر کی خدمت فرض نہیں کرتی تو پھر اس پر کیوں بوجھ ڈالا جائے۔

جواب: شریعت اور مذہب کیا کہتا ہے کہ بوڑھے ساس سسر کو بے یارومددگار چھوڑ دو؟ پھر والدین کے حقوق پر احکامات، ضعیف لوگوں کے حوالے سے احکامات اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی پر بے شمار احکامات کہاں گئے ؟

شریعت نے بیوی پر یہ فرض عائد نہیں کیا اور نہ ہی ایسا نہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ شریعت نے بہت سے باتیں کامن سینس پر چھوڑ دی ہیں اور ہر زمانے اور سماج کے عرف یعنی رواج اور دستور کی بھی خاص اہمیت ہے خاص کر جب وہ شریعت کے منافی نہ ہوں۔

سوال : آج کی ہمارے سماج کی بیویوں پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جاتا ہے جبکہ شریعت انہیں اس کا پابند نہیں ٹھیراتی؟

جواب : ہم اپنی مرضٰ کی چیزیں شریعت میں سے لے لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بیوی پر شوہر کے والدین کا خیال رکھنا فرض نہیں تو پھر شریعت کی رو سے خاوند کے لئے دوسری شادی کرتے ہوئے پہلی بیوی سے اجازت کی قطعی ضرورت نہیں،درحقیقت بیوی اجازت دینے کا اختیار رکھتی ہی نہیں۔

اس معاملے میں اس سے پوچھے جانے کی کوئی ایک بھی مثال شریعت میں نہیں نہ صحابہ کرامؓ نے ایسا کیا۔ آج کی عورت کیا ایسا برداشت اور قبول کر سکتی ہے؟ اس معاملے میں خواتین چاہتی ہیں کہ ملکی قوانین کی پابندی کی جائےجہاں اجازت کی شرط عائد ہے اور خلاف ورزی پر مرد کو قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔

دوسرا اس زمانے میں لونڈیوں کی اجازت تھی اور کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ ان سے استفادے کی اجازت بھی۔ آج کیا ایسا ہوسکتا ہے یا بیویاں اس کی کسی بھی طور سے اجازت دے سکتی ہیں؟ زوج المسیار وغیرہ وغیرہ۔ جواب نفی میں ہے۔

تیسری بات عرب کا مخصوص قبائلی معاشرہ تھا ، جہاں بہت سی چیزیں اجتماعی نوعیت کی تھیں، قبیلہ بہت کچھ اون کرتا تھا۔ وہاں بچے بھی لاوارث نہیں رہتے تھےاور نہ بزرگ ۔ ایک شخص کا قرض بہت سے کیسز میں پورا قبیلہ ادا کرتا تھا۔ ایسے سسٹم میں کچھ انفرادی فرائض کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

آج کے معاشرے خاص کر برصغیر پاک وہند میں مرد ہی اپنے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کا کفیل بھی ہے اور انہیں سنبھالنے والا بھی۔

عرب سماج میں چھوٹا یونٹ تھا، مرد اور اس کی بیویاں اور بچے جبکہ خدمت کے لئے لونڈیاں دستیاب تھیں۔ آج مرد کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے یعنی اپنے فرائض کی ادائیگی یعنی اپنے والدین کی دیکھ بھال کے لئے بیوی کی سپورٹ چاہیے ہے، خاص کر جب اس کی ایک ہی بیوی ہو اور اسے گھر چلانے کے لئے دو دو جاب کرنی پڑتی ہوں۔براہ کرم ان معاملات پر بھی نظر ڈالیں اور پھر رائے بنائیں۔

سوال : شادی کے بعد میاں بیوی کا الگ گھر یا کم از کم الگ پورشن ہو، بیوی پر ساس سسر کا خیال رکھنے کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی، کیا ایسا نہیں؟

جواب : بیوی کی زمہ داری میں اس کے خاوند کا گھر چلانا ہے اور ہمارے ہاں مرد کا گھر اس کے ماں باپ کے بغیر مکمل نہیں۔ اس لئے یہ بات کہنا غلط ہے کہ بیوی کی زمہ داری نہیں۔ بیوی کی مکمل زمہ داری ہے۔

جو لڑکی ایسا نہیں کرنا چاہتی وہ شادی ہی نہ کرے یا شادی سے پہلے یہ کنٹریکٹ کرے کہ میں نے شادی کے بعد صرف خاوند کا خیال رکھنا ہے ۔اٹس سوسمپل۔

سوال :شادی کا کانٹریکٹ تو میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے، اس طرح کی باتیں کون کہتا ہے ؟ کانٹریکٹ یعنی نکاح نامہ میں یہ سوال ہوتے ہی نہیں۔

جواب : کانٹڑیکٹ میں تو یہ بھی نہیں لکھا ہوتا کہ شادی کے بعد میاں بیوی کے مابین جسمانی تعلقات قائم ہوں گے، مگر یہ انڈرسٹڈ ہے۔ ہمارے ہاں موجودہ صورتحال میں یہ انڈرسٹڈ ہے کہ لڑکی سسرال جا کر گھر سنبھالے گی اپنی استعداد کے مطابق۔
اگر کسی کا یہ ارادہ نہیں اور مختلف طرزعمل اپنانا ہے تو وہ اپنی سوچ کا پہلے سے اظہار کرے۔بہت جگہوں پر لڑکی کےماں باپ پہلے ہی یہ بات منوا لیتے ہیں کہ سسرال نے لڑکی کو جاب سے نہیں روکنا۔ شادی کے بعد الگ رہنے اور ساس سسر کی ذمہ داری نہ اٹھانے والی بات بھی پہلے ہی واضح کر لی جائے تو کہیں شکوہ شکایت نہیں ہوگی۔ سب کچھ پہلے سے کلیئر ہوگا۔

کاش ہماری فیمنسٹ لڑکیاں یہ اخلاقی جرات دکھائیں۔ بطور مرد مجھے تو اس پر خوشی ہوگی۔ میرے ایک بیٹی اور خیر سے تین بیٹے ہیں۔ مجھے تو خوشی ہوگی کہ میری بہوئیں اگر اس حوالے سے کرسٹل کلیئر ہوں۔

اس معاملے میں وہ اپنی پوزیشن کلیئر رکھیں تاکہ ہم لڑکے والے اسی اعتبار سے اپنا ردعمل طے کریں اور نکاح کے کانٹریکٹ سے پہلے ہی یکسو ہو جائیں۔

جہاں تک میری بیٹی کا تعلق ہے تو میں اس کا قائل ہوں کہ شادی کے بعد خیر سے اسے اپنے سسرال کا خیال رکھنا چاہیے، خاص کر بوڑھے ساس سسر کا۔ میرے نزدیک یہ اس کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے اور اسے اپنے خاوند کے کہے بغیر ایسا کرنا چاہیے، یقیناً ایسا کرنے سے دنیاوی اور اخروی ثمرات ملیں گے ان شااللہ۔
سوال : ماں باپ کی خدمت مرد کے ذریعے ہی ہونی چاہیے، یہ اس کا فرض ہے اور وہی بہتر طریقے سے کر سکتا ہے

جواب :ـ درست بات ہے لیکن جس گھر میں شوہر دو جاب کر کے سولہ سے اٹھارہ گھنٹے باہر مشقت کر کے گھر آئے گا، وہ پھر اپنے بوڑھے ماں باپ کی کیا خدمت کر سکے گا؟ اور ہر گھر میں دوپہر کے کھانے پر مرد کام پر ہوتا ہے ، جبکہ پاکستان انڈیا میں بیشتر گھروں میں تب بیوی گھر پر ہوتی ہے۔ اگر مرد نے رات گئے واپسی پر ماں باپ کا کھانا پکانا ہے تو پھرماں باپ تو بھوکےرہ جائیں گے ۔
سوال : مرد بھی شادی سے پہلے تارے توڑ لانے کے دعوے کرتے ہیں اور پھر بعد میں یوٹرن لے لیتے ہیں۔

جواب : مرد اگر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتا ہے تو وہ بھی غلط کرتا ہے۔ یہ البتہ یاد رکھیں کہ لڑکی کے والدین صرف مرد کے دعوئوں اور وعدوں پر بھروسہ نہیں کرتے، ۔ وہ بیوی کا جیب خرچ ، زیورات، نقد حق مہر اور کچھ زمین، پلاٹ مکان کا حصہ وغیرہ نکاح نامے میں لکھواتے ہیں۔ بہرحال بیوی کی ذمہ داریوں کی بات ہو رہی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مردوں کو رعایت دی جائے، انہیں اپنے وعدے وعید پورے کرنے چاہئیں۔

ایک (طنزِ خفی نما) تجویز:
جو بیوی یہ چاہتی ہے کہ وہ شادی کے بعد صرف اپنی خاوند کا خیال رکھے ، اس سے وابستہ کسی اور رشتے کا نہیں۔تو اسے چاہیے کہ اپنے ان نیک عزائم کا اظہار نکاح سے پہلے کرے۔
جس طرح بہت سے گھروں میں لڑکی پہلے یہ شرط رکھتی ہے کہ اسے شادی کے بعد جاب کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔ یہ بات وہ ظاہر ہے اپنے والدین کی زبانی کہلاتی ہے ، اسی طرح سسرال میں جا کر اپنے ممکنہ طرزعمل کے حوالے سے بھی اسے وضاحت کر دینی چاہیے ۔

نکاح ایک کنٹریکٹ ہے۔ خاتون بیوی بننے سے پہلے یہ معاہدہ کرلے۔ جس مرد کو وارا کھائے گا وہ اس سے شادی کر لے گا، ورنہ چلتا بنے گا۔

تاہم شادی سے پہلے معصوم، مشرقی ، سگھڑ اور فیملی اورئنٹڈ ہونے کا تاثر دینے والی لڑکیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شادی کے بعد بدل جائیں اور مرد کے بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھنے کو بوجھ یا ظلم سمجھیں۔

اس تجویز پر ایک سوال : خاوند کی اطاعت بیوی پر فرض ہے ، اس طرح سے خاوند کے کہنے پر اس کے گھروالوں کا خیال رکھنا بھی بیوی پر فرض ہوا۔

ہمارا جواب: ہم تو فرض، واجب کی بحث ہی نہیں کر رہے۔ سیدھی بات ہے کہ شادی سے پہلے گیم کے رولز واضح کر لو ۔ پہلے منافقت نہ دکھائو، اخلاقی جرات پیدا کرو تاکہ لڑکے والے بعد میں شکوہ نہ کریں۔

کرنا کیا چاہیے ؟
ہمارے خیال میں لڑکی کو سسرال کو اپنے گھر کی طرح سمجھنا چاہیے۔ خاوند کے ماں باپ اس کے بھی ماں باپ ہیں ، والدین کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا جاتا۔ اپنے گھر میں بھی لڑکیاں اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھتی ہیں، اگر ممکن ہوسکے تو سسرال میں بھی یہ بوجھ اٹھا لے یا کم از کم اس کی حتی الامکان کوشش کرے۔
دوسری طرف خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے ایسے رویے کی حوصلہ افزائی کرے۔

بیوی اس کے ماں باپ کا خیال رکھ رہی ہے تو وہ اس کی تلافی کے طور پر اس کا زیادہ خیال رکھے، اس کا ہاتھ بٹائے، افورڈ کر سکتا ہے تو ملازمہ رکھ دے، بیوی کا ممنون ہو، اسے سراہے، دوسروں کے سامنے اعلانیہ اس کی تعریف کرے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدمت زبردستی نہیں ہوسکتی ۔ مرد اگر اپنی بیوی کا ایکسٹرا خیال رکھے تو بیوی کو بھی ایکسٹرا ذمہ داری اٹھانے کی ترغیب ملے گی۔

اس حوالے سے لڑکی کے والدین کا کردار اہم ہے ۔ وہ اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کریں جیسی وہ اپنی بہو سے توقع کرتے ہیں۔ بچیوں کو سکھائین کہ بزرگوں کا خیال رکھنا نہ صرف اخروی اجر کا باعث ہے بلکہ ان کا مرد بھی خوش ہوگا، اس کا دل جیتا جا سکے گا۔
سسرال والوں کو بھی چاہیے کہ بہو پر کام کا پہاڑ لاد دینے کے بجائے حسن سلوک رکھیں۔ وہ اپنی بیٹیوں سے جو کردار شادی کے بعد توقع کرتے ہیں، ویسا ہی اپنی بہو کے ساتھ معاملہ رکھیں۔ خاص کر بہو کے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں، تحفے تحائف بھی دیتے رہیں تو دونوں اطراف میں دل جیتے جا سکتے ہیں۔

Related Posts