معاشرے میں دولت کی مساوی تقسیم کیلئے اسلامی اصولوں کی پاسداری کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

traders concerns over rise interest rates

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام غربت، بے روزگاری اور مختلف معاشی مشکلات کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں جبکہ علمائے اسلام  دولت کی مساوی تقسیم کے لیے اسلامی اصولوں کی پاسداری کو لازمی قرار دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ معاشرے میں دولت کی مساوی تقسیم سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس کے حوالے سے اسلامی اصول کیا ہیں؟ اور موجودہ دور میں ان کی پاسداری کیسے ممکن ہے؟

دولت کی مساوی تقسیم سے مراد؟

انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا، زندگی گزارنے کے لیے اسے ایک معاشرہ چاہئے، تاہم اس معاشرے میں روپے پیسے کا لین دین اور معاشی مسائل کا حل دولت کی مساوی تقسیم کے بغیر اسے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

Image result for GOLD

دولت کی مساوی تقسیم سے مراد معیشت کا ایسی پالیسیوں پر عمل کرنا ہے جن کے تحت عوام کی مشکلات، معاشی معاملات  اور بے روزگاری و مہنگائی سمیت دیگر مسائل پر قابو پایا جاسکے۔

ایک قول کے مطابق اگر ہم دنیا کے تمام امیر افراد کی دولت ان کے ہاتھوں سے چھین کر تمام امیر و غریب افراد میں برابر برابر تقسیم کردیں، پھر بھی دولت برابر تقسیم نہیں ہوسکتی کیونکہ کچھ ہی وقت کے بعد پھر کچھ لوگ امیر اور کچھ غریب ہوجائیں گے۔

Image result for pEOPLE IN PAKISTAN

ایسا اِس لیے ہوگا کیونکہ کچھ لوگ معاشی معاملات کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ وہ دولت کو کاروبار میں لگا کر اس سے منافع کمائیں گے جبکہ باقی افراد اُس سرمائے کا غیر عقلی استعمال کرکے اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

ارتکازِ دولت کا زرّیں اسلامی اصول

اسلام نے معاشرے کو ارتکازِ دولت کے حوالے سے ایک ایسا اصول دیا جس کی پاسداری آج دنیا بھر کے تمام معاشی مسائل کا حل نظر آتی ہے۔ اسلام کے مطابق دولت کی مثال انسانی جسم میں خون کی مانند ہے۔

Image result for Blood

اگر  آپ جسم میں خون کو ایک جگہ روک دیں گے تو زیادہ خرابی وہیں پیدا ہوگی جہاں اُس خون کو روکا گیا ہے۔ لہٰذا مالدار افراد کو صدقہ، زکوٰۃ، فطرہ اور خیرات کے ذریعے غریبوں پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی دعوت دی گئی۔

زکوٰۃ اور ٹیکس میں فرق

زکوٰۃ اور ٹیکس میں چند اہم فرق یہ ہیں کہ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نافذ کی ہے جبکہ ٹیکس ایک ریاست اپنے شہریوں پر عائد کرتی ہے۔زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے لیے خدا نے اجر کا وعدہ کیا جبکہ حکومتِ وقت سے اس قسم کے عہد کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ 

Image result for Zakat

دوسری جانب زکوٰۃ کی ایک مقررہ مقدار 2.5 فیصد  مقرر کی گئی ہے جس میں قیامت تک کوئی کمی بیشی نہیں آئے گی جبکہ حکومتِ وقت نافذ کردہ ٹیکس کی مقدار میں کسی بھی وقت کمی بیشی کرسکتی ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ زکوٰۃ صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے جبکہ ریاست ٹیکس ملک کے تمام افراد پر بھی نافذ کرسکتی ہے۔ ملک بھر کے غریب افراد مختلف مدات بالخصوص سیلز ٹیکس کی ادائیگی آج بھی کر رہے ہیں جو اسلامی نظام کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔

جب منافقین کو علم ہوا کہ ان پر زکوٰۃ نافذ کی گئی ہے تو وہ اسے ٹیکس سمجھ کر اس کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لینے لگے تاہم اسلام کے مطابق زکوٰۃ دینے سے مال میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ زکوٰۃ و صدقات سے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔

دولت کی تقسیم پر دیگر اسلامی اصولوں کی افادیت 

فطرہ سے مراد ایک کلو گندم، جو یا کشمش کی قیمت کے برابر صدقہ ہے جو عید الفطر کے موقعے پر غریب عوام کو ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عید الاضحیٰ کے موقعے پر امیر لوگوں کو جانوروں کی قربانی کا حکم ہے جن کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔

Image result for eid ul adha

قربانی کے گوشت کو اپنے گھر، عزیز و اقارب اور ہمسایوں کے ساتھ ساتھ غریب افراد کو بھی دینا مسلمان اور صاحبِ استطاعت افراد پر فرض قرار دیا گیا ہے جس کی پاسداری غریب عوام کے لیے راحت کا باعث ہے۔

مسلمانوں کے  کسان طبقے پر اسلام نے عشر کا اصول نافذ کیا۔ ہر وہ شخص جو زمین کاشت کرے، اس پر عشر دینا واجب ہوتا ہے۔ یہ پیداوار کی زکوٰۃ کہلاتی ہے۔ سال میں جتنی بھی فصلیں کاشت کی جائیں، سب پر عشر واجب ہوتا ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مویشیوں کے چارے پر بھی عشر کو واجب قرار دیا ہے۔ عشر کے ذریعے کھیتی باڑی کرنے والے زمیندار کاشتکار غریب عوام کو اپنے مال کا دسواں حصہ یا زائد دے کر انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں۔

اَن دیکھے کاروبار کی ممانعت 

آج سے 1400 سال سے زیادہ پرانا مذہب اسلام ہمیں ایسے ایسے زریں اصول عطا کرتا ہے کہ اکیسویں صدی کے ماہرینِ معاشیات ان کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ انہی اصولوں میں سے ایک اَن دیکھے کاروبار کی ممانعت بھی ہے۔

Image result for gOAT

اسلام کہتا ہے کہ آپ وہ بکری کا بچہ فروخت نہیں کرسکتے جو ابھی پیدا نہیں ہوا۔ وہ مچھلیاں خرید نہیں سکتے جنہیں مچھیروں نے ابھی پکڑا نہیں ہے اور ایسا کوئی کاروبار نہیں کرسکتے جو حقیقی سطح پر اپنا کوئی وجود نہ رکھتا ہو۔

موجودہ دور میں لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے انہیں ایسے ایسے کاروباری افعال میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور ایسے ایسے سبز باغ دکھا کر لوٹا جاتا ہے جس کی مثال گزشتہ ادوار میں ملنا محال ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایسے ہر کاروبار سے منع کیا جسے آپ نے دیکھا نہ ہو۔ آپ ایسی کسی چیز میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتے جسے آپ نے کبھی چھو کر نہیں دیکھا۔ عوام ایسے ہی کاروبار میں شریک ہو کر لٹ جاتے ہیں۔ 

سود کی ممانعت 

سود موجودہ معاشی نظام کا وہ ناسور ہے جس نے ملکوں کے ملک مقروض کرکے دستِ نگر بنا لیے اور آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو سود کی لعنت میں گرفتار نہ ہو۔ اسلام نے سود کی ممانعت بڑے سادہ انداز میں کی۔

Image result for nATIONAL BANK OF PAKISTAN

اسلام کہتا ہے کہ آپ اشیائے ضروریہ خرید اور بیچ سکتے ہیں اور ان پر منافع بھی وصول کرسکتے ہیں، تاہم آپ پیسہ قرض دے کر اتنا ہی پیسہ وصول کریں گے جو آپ نے دیا تھا۔ قرض پر آپ کو کوئی منافع لینے کی اجازت نہیں ہے۔

اسلامی اصولوں پر عمل کی ضرورت 

پاکستانی قوم بینکوں اور حکومت سمیت سود کے ایک ایسے نظام میں سر سے لے کر پیر تک جکڑی ہوئی ہے جس نے اُس کے خون سے اسلامی اصولوں کی پاسداری کے رجحانات کو آہستہ آہستہ ختم کرنا شروع کردیا ہے۔

Image result for iMRAN kHAN

وزیرِ اعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں جبکہ موجودہ ریاستِ پاکستان گزشتہ 70 سال سے سودی نظام کی پیروکار چلی آ رہی ہے۔

ہماری ناقص رائے میں پاکستان سمیت دنیا کی ہر قوم کو دولت کی تقسیم کے حوالے سے اسلامی اصولوں پر عمل کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی ضرورت اس سے قبل کبھی نہ تھی۔

Related Posts