پنجاب اسمبلی کی تحلیل: کیا ہوسکتا ، کیا نہیں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پنجاب اسمبلی کی تحلیل: کیا ہوسکتا ، کیا نہیں ؟
پنجاب اسمبلی کی تحلیل: کیا ہوسکتا ، کیا نہیں ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پنجاب اسمبلی میں بدھ اور جمعرات کی رات تحریک انصاف اور ق لیگ نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو جو بڑا سرپرائز دیا ، اس کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے جمعرات کی شام کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی گورنر پنجاب کو بھجوا دی گئی ۔

کیا ہوتا رہا ؟
اس سب میں پس پردہ بہت کچھ ہوتا رہا، سیاسی چالوں، جوابی چالوں، اصل پلاننگ کو خفیہ رکھنا اور مخالف کو ہکابکا کر دینے کی حکمت عملی بنتی رہی۔پی ڈی ایم نے بھی سمارٹ مووکیں۔چند ہفتے قبل ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وزیراعلیٰ کے خلا ف تحریک عدم اعتماد منظور کرانا ممکن نہیں کہ ایسی صورت میں انہیں 186کے طلسماتی عدد کو حاصل کرنا پڑے گا، یہ ان کی ذمہ داری ہوگی۔

پی ڈی ایم خاص کر آصف زرداری اور رانا ثنااللہ وغیرہ نے تب گورنر پنجاب کوکہا کہ وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔ آئینی طور پر یہ گورنر کا اختیار ہے، مگر انہوں نے وزیراعلیٰ کو وقت کم دیا تھا، جس پرپنجاب حکومت عدالت میں گئی اور عدالت نے اگلی پیشی گیارہ جنوری کو رکھی ، شائد اس لئے کہ دو ہفتوں سے زیادہ کا وقت صوبائی حکومت کو مل سکے۔

پرویز الٰہی کا مخمصہ
چودھری پرویز الٰہی کے لئے اسمبلی توڑنا کوئی دل خوش کن امر نہیں تھا، وہ پندرہ برس بعد وزیراعلیٰ بنے تھے، فطری طور پر ان کی خواہش تھی کہ اس مدت کو بڑھا یا جائے۔ عمران خان کے غیر معمولی اصرار پر وہ رضامند ہوئے۔ چودھری صاحب اور ان کے تھنک ٹینک کی رائے تھی کہ چونکہ ہم گورنر کے حکم کو غیر آئینی کہہ رہے ہیں اس لئے ہم اسے مانتے ہوئے اعتماد کا ووٹ کیوں لیں؟ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی توڑ دی جائے تاکہ اس ڈرامے کا اختتام ہوسکے۔

گیارہ جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ججز کے کمنٹس سے یہ اندازہ ہوا کہ چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ ہر حال میں لینا پڑے گا۔ تب حکومتی کیمپ میں یہ سوچا گیا کہ بارہ جنوری کو اگلی سماعت سے پہلے ہی اعتماد کا ووٹ کسی طرح لے لیا جائے تاکہ عدالت میں کیس کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی چینل کے ذریعے گورنر سے بھی رابطہ کیا گیا اور انکی رائے پوچھی گئی۔

گورنر کا کردار کیسا رہا ؟
گورنر پنجاب بلیغ الرحمن ایک معتدل اور وضع دار شخص ہیں، انہوں نے رانا ثنااللہ اور عطا تارڑ وغیرہ کے دباﺅ کے باوجود اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے حکم سے پہلے مختلف قانونی ماہرین سے خود مشاورت کی اور دو دن لگائے تھے۔ وہ نجی محفلوں میں کہہ چکے ہیں کہ آئین کی پابندی کریں گے۔ مبینہ طور پر اس بار بھی ان کا جواب تھا کہ وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا گورنر کا آئینی اختیار ہے۔ اگر وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لے لیں تو پھر میں ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لوں گا۔

پرویز الٰہی کا سرپرائز
اب یہاں پر چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی فراست اور ہوشیاری کام آئی ۔ انہوں نے اپنی طرف سے پوری تیاری کی مگر اپوزیشن پی ڈی ایم کو دھوکے میں رکھا۔ رانا ثنااللہ، ملک احمد خان اور عطا تارڑ وغیرہ یہ سمجھتے رہے کہ پرویز الٰہی کے پاس اکثریت نہیں ہے اور وہ اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کریں گے۔ پنجاب اسمبلی میں بدھ کی شام تک اپوزیشن مسلسل دباﺅ ڈالتی اور نعرے لگاتی رہی کہ اعتماد کا ووٹ لیں۔

جب حکومت نے اچانک پینترا بدلا اور پتہ چلا کہ پرویز الٰہی صوبائی اسمبلی پہنچ گئے ہیں اور کچھ ہی دیر میں اعتماد کا ووٹ لیا جائے گا، تب پی ڈی ایم کے ماہرین چکرا گئے۔ انہوں نے شور شرابا اور ہنگامہ آرائی کرنے اور اجلاس ملتوی کرانے کی کوشش کی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان مضبوط اعصاب کے مالک تجربہ کار سیاستدان ہیں،وہ اس دباﺅ میں نہیں آئے اور سکون سے کارروائی آگے بڑھاتے رہے۔ کچھ دیر کے لئے وہ دانستہ ہٹے اور ڈپٹی سپیکر کو کام کرنے دیا۔ یوں نصف شب کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔

یہ ان کی ایسی کامیابی تھی جس نے پی ڈی ایم کو چاروں شانے چت کر دیا۔ بارہ جنوری کو لاہورہائیکورٹ میں پی ڈی ایم کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ گورنر نے ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا توعدالت نے کیس نمٹا دیا اور کہا کہ اچھی بات ہے معاملہ اسمبلی میں حل ہوا۔

اسمبلی تحلیل کرنے کا چھکا
اب اگلا مرحلہ جو سب سے بڑا چیلنج تھا کہ کیا چودھری پرویز الٰہی صوبائی اسمبلی تحلیل کر دیں گے؟ جمعرات کی شام بیشتر تجزیہ کار اور صحافی اس حوالے سے شکوک کا اظہار کر رہے تھے، ن لیگ کے لئے سافٹ کارنر رکھنے والے صحافیوں اور اینکرز کی یہ متفقہ رائے تھی کہ پرویز الٰہی کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس معاملے میں کب کا عمران خان اور پرویز الٰہی ، مونس الٰہی میں اتفاق رائے ہوچکا ہے۔
عمران خان اور ق لیگ کے اس تازہ ترین قربت میں سب سے اہم کردار چودھری مونس الٰہی کا ہے، وہ پچھلے کچھ عرصے سے بار بار اپنے والد کو یہ سمجھاتے رہے کہ عوامی موڈ عمران خان کے ساتھ ہیں، ہمیں ادھر ہی رہنا چاہیے ، ن لیگ کے پاس ہمیں دینے کو کچھ نہیں اور وہ ہرگز مخلص نہیں ۔ ق لیگ دولخت ہوئی مگر مونس الٰہی اپنے کزن حسین الٰہی کو ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے ، البتہ چودھری خاندان کی نئی نسل میں سالک حسین اور مونس الٰہی کے مابین جو کشیدگی اور فاصلے برسوں سے تھے، وہ اس بار پوری طرح سامنے آئے اور ان دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔

گورنر اب کیا کر سکتا ہے؟
آئینی طور پر گورنروزیراعلیٰ کی اسمبلی تحلیل ایڈوائس پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ اگر گورنر اسے نہ مانے تو اڑتالیس گھنٹوں یعنی دو دنوں کے اندر اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، یعنی اس ”میزائل“ کو روکنے کا کوئی سسٹم آئین میں موجود نہیں۔ یاد رہے کہ یہ واحد معاملہ ہے جس پر آئین میں ازخود(آٹو میٹک) عمل درآمد کا کہا گیاہے، ورنہ باقی معاملات میں نوٹیفکیشن جاری کرنے کی شرط ہے۔حتیٰ کہ اسمبلی کوئی بل منظور کرے تو گورنر اسے کم از کم ایک بار واپس بھیج سکتا ہے، دوسری بار بل منظور ہونے پر البتہ گورنر مجبور ہوجائے گا۔ اسمبلی کی تحلیل کے معاملے میں وہ روکنے کا اختیار ہی نہیں رکھتا۔

کیا عدالت اس معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے؟
مختلف قانونی ماہرین سے اس بارے میں ڈسکس کرنے کے بعد اعتماد سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عدالت کے پاس مداخلت کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔ وزیراعلیٰ نے چونکہ اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے ، اس لئے کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ انہیں اکثریت حاصل نہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنی اکثریت ثابت کی ہے ، انہیں آئین مکمل اختیار دیتا ہے کہ وہ اسمبلی جب چاہیں تحلیل کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن پابند ہے کہ اگلے نوے دنوں کے اندر صوبائی اسمبلی کا الیکشن کرا دے ۔

تحریک عدم اعتماد کی آپشن
پی ڈی ایم کے پاس ایک آپشن یہ ہوسکتی تھی کہ وہ کسی طرح پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دیتے ۔ اس طرح سے وزیراعلیٰ اسمبلی نہیں توڑ سکتا تھا، اگرچہ چند دنوں کے اندر تحریک نمٹا دینے کے بعد پھر تحلیل ہو ہی جانی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ نصف شب والا سرپرائز اتنا شدید دھچکے والا تھا کہ پی ڈی ایم کو جمعرات کے روز تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ ایک آدھ تکنیکی مسئلہ بھی درپیش تھا۔

اب کیا ہوگا؟
بظاہر پنجاب اسمبلی کی تحلیل یقینی نظر آ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آصف زرداری نے کل عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ممکن ہے یہ کوشش کی جائے، مگر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا، وزیراعلیٰ کا اختیار بالکل واضح اور غیر مبہم ہے ، اعتماد کا ووٹ انہوں نے لے لیا ہے تو اکثریت نہ ہونے کا الزام بھی نہیں لگ سکتا۔ خیر یہ آپشن تو کل واضح ہوجائے گی۔

نگران حکومت
اصولی طور پر اب گورنر پنجاب کو نگران حکومت کے لئے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے مابین مشاورت کرنی چاہیے۔ حمزہ شہباز اس وقت بیرون ملک ہیں، انہیں بلایا جا سکتا ہے اور وہ ای میل کے ذریعے بھی اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ اس وقت جس قدر شدید کشیدگی دونوں فریقوں میں ہیں، اس کے پیش نظر اتفاق رائے ہونا مشکل ہے۔ ایسا نہ ہونے پر اسمبلی کی ایک پارلیمانی پارٹی بنائی جائے گی جس میں حکومت اور اپوزیشن کو مساوی نمائندگی ہوگی۔ اتفاق نہ ہوا تو پھر الیکشن کمیشن نگران حکومت نامزد کرے گا۔ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرے تو ساٹھ دن میں الیکشن ہوتے ہیں جبکہ اسمبلی خود توڑی جائے تو نوے روز میں الیکشن لازم ہیں۔ موجودہ کیس میں نوے روز میں الیکشن ہوں گے یعنی وسط اپریل سے پہلے پہلے۔

کے پی اسمبلی کی تحلیل کا مسئلہ
تحریک انصاف کی پلاننگ یہ ہے کہ پہلے پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے دیا جائے ، اس کے بعد کے پی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس جاری کی جائے۔ یہ احتیاط کے طور پر کیا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی تکنیکی یا قانونی وجہ کو آڑ بنا کر پنجاب اسمبلی کی تحلیل روک دی جائے جبکہ گورنر کے پی فوری طور پر کے پی اسمبلی تحلیل کر دے۔ دو دن بعد یعنی ہفتہ کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوجانی چاہیے، ایسا ہوا تو فوری طور پر کے پی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس جاری کر دی جائے گی۔ اگر پنجاب اسمبلی کسی طرح سے نہ توڑی جا سکتی تو پھر کے پی اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہوگی۔

مستقبل کا منظر نامہ
یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف اور ق لیگ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر خاصی مشاورت ہوچکی، عمران خان نے پرویز الٰہی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جہاں ان کے پاس مضبوط امیدوار ہوگا، وہاں ہم سیٹ آپ کو دے دیں گے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ اگلی اسمبلی میں وزیرا علیٰ کے حوالے سے بھی خان صاحب نے پرویز الٰہی کو کوئی اشارہ دیا ہے۔ اس بات کو مگر کوئی کنفرم نہیں کر سکتا کہ ابھی یہ آگے کی بات ہے۔ الیکشن کے بعد نشستوں کی تعداد اور دیگر چیزیں طے کریں گی کہ اگلا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟

ذرائع البتہ یہ بتاتے ہیں کہ عثمان بزدار کی کہانی اب ختم ہوچکی اور شائد مستقبل میں پنجاب حکومت کے فیصلوں میں بشریٰ بی بی کی آرا بھی زیادہ اثرانداز نہیں ہوسکیں گی۔ ویسے پرویز الٰہی نے جس طرح پی ڈی ایم کو سیاسی طور پر ناک آﺅٹ کیا ہے، اس پر انہیں یہ منصب سونپا جا سکتا ہے، تاہم جس طرح پہلے کہا کہ یہ آگے کی بات ہے، ابھی تو اسمبلی کی تحلیل، نگران سیٹ اپ اور پھر الیکشن کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ اس دوران پی ٹی آئی کی یہ خواہش بھی ہوگی کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ کسی طرح قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بھی ہوجائیں۔ یہ مگر آسان نہیں۔

Related Posts