صدی کی سب سے بڑی نام نہاد ڈیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازع کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل فلسطین امن منصوبے کا اعلان کرنے والے ، منصوبے کے حوالے سے ٹرمپ پر شدید تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں اور اسرائیلیوں کو خوش کیا گیا ہے۔ نام نہاد صدی کی سب سے بڑی ڈیل میں پچھلے 2 سالوں کے دوران متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اسےمکمل طور پر چھپا کررکھا گیا ہے۔

منصوبے کی نقاب کشائی سے قبل ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے سیاسی حریف بینی گانٹز کی میزبانی کر چکے ہیں۔ فلسطینی قیادت نےپہلےہی مجوزہ ڈیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، یہ امن معاہدہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتا ہےجوایک آزاد مملکت کے قیام کی راہ میں رکاووٹ ہے۔ فلسطینی رہنماؤں کو بھی واشنگٹن اور امریکانہیں بلایا گیا ہے اور اسرائیلی رہنما ان کے لئے فیصلے کر رہے ہیں۔

فلسطینی قیادت نے نے عرب اور مسلمان ممالک سے امن منصوبے کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے 1994 میں اوسلو معاہدے کی نشانیوں سے دستبردار ہونے کی دھمکی بھی دی ہے۔ نیتن یاہو اس سے قبل ٹرمپ کو اسرائیل کا سب سے بڑا دوست کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو شفٹ کرنے کا متنازعہ فیصلہ کیا اور یروشلم کو اسرائیل کی منقسم ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا۔

منصوبے کے اعلان کے وقت نے بھی سوالات اٹھائے ہیں کیوں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں کو اپنے ملک میں مسائل کا سامنا کرنا ہے اور وہ ان سے توجہ ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ٹرمپ کو امریکی سینیٹ میں مواخذے کے مقدمے کا سامنا ہے جہاں ان پر دیگر ممالک کو فوجی امداد ینے پر تنقید کی جارہی ہے جبکہ نیتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ مخلوط حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

عالمی طاقتوں کااس بات پر اتفاق ہے کہ یروشلم کی حیثیت سمیت اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین دو طرفہ تنازعہ کو حل کیا جانا چاہئے۔ ٹرمپ کے اقدام سے فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کومزید شہہ ملے گی۔ اسرائیل نے سن 1967 سے مشرقی یروشلم ، مغربی کنارے ، اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کررکھا ہے اور600،000 سے زیادہ بستیاں غیر قانونی قائم کی ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دنیا اسرائیلی اقدامات کا نوٹس لینے میں ناکام نظر آتی ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر بھی عمل نہیں کیاجارہا۔

گزشتہ سال بھی ٹرمپ کے اعلان سے فلسطینی مایوس نظر آئے جب انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین سے متصادم نہیں سمجھتا۔ گذشتہ سال جون میں اس معاہدے کے معاشی جزو کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں اگلے دس سالوں میں فلسطین اور پڑوسی ممالک میں 50 ارب ڈالر ڈالر کی بین الاقوامی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ مالی مراعات دینے کی لالچ سے فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست کیلئے جدو جہد کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔

عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہئے کہ یکطرفہ امن منصوبے کو فلسطینیوں کی آزاد مملکت کی خواہش کےبر عکس ان پر تھوپا جارہا ہے۔ امن منصوبہ مسلم دنیا کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ اس موقع پر فلسطینیوں کے لیے کیا اقدام کرتے ہیں جس میں فلسطینیوں کے لیے ایک ایسے منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے جس میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

Related Posts