پرویز مشرف سنگین غداری کیس

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کسی بھی انسان یا ادارے پرجب غداری کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس کے پسِ پردہ حقائق اور سرکاری نظم و نسق کی کارکردگی پر توجہ مرکوز ہوجاتی ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل انگریزسرکار کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر غداری کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی یہی قانون پاکستان کے شہریوں کاتعاقب کررہا ہے۔

پاکستان کے گلی کوچے ہوں یا اقتدار کے ایوان لفظ کافر اور غدار بکثرت سننے کو ملتا ہے ،پاکستان میں اگر آپ کو کسی کی شکل پسند نہیں یا اس کے مذہب یا مسلک سے اختلاف ہے تو اس پر کفر یا غداری کا فتویٰ لگادیا جاتا ہے ۔

تاہم پاکستان کی تاریخ میں ایک ایساکیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے جس میں کسی عام آدمی پر نہیں بلکہ ملک کے سابق سپہ سالار اور صدرمملکت کے عہدے پر فائز رہنے والے فوجی حکمراں پرویز مشرف پر سنگین غداری کاالزام عائد کرتے ہوئے سزا دینے کی درخواست کی گئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس بنایا ، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔سابق حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

آئین کے آرٹیکل 6کے مطابق سنگین غداری کے مطابق کوئی بھی شخص جس نے آئین کو معطل کیا ہو یا اسے منسوخ کیاہووہ غداری کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس قدم کی سزا موت یا عمر قید ہے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی ، اس کے بعد عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے حکم کے بعد سابق صدر پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔خصوصی عدالت نے حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائےتاہم سابق صدر کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے واپس لانے کی درخواست رد کردی گئی۔

خصوصی عدالت نے19 نومبر کو سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف 28 نومبر تک کے لیے فیصلہ محفوظ کیا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رُکوانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔

‘ایک سابق فوجی سربراہ پر غداری کا مقدمہ چلانا ہی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ کیس پرویز مشرف کی جانب سے 1999 میں کی گئی فوجی بغاوت کے خلاف نہیں ہے بلکہ نومبر 2007 میں لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف ہے۔

غداری کا تعین کرنا اور اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا صرف اور صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ اس بات کی تحقیق کے بعد وفاقی حکومت شکایت کا آغاز کرتی ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ کاکہنا ہے کہ پرویز مشرف کو غدار کہنا ظلم ہے، ان کے خلاف کیس صحت یابی تک موخر کر دینا چاہیے، پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے عدالتوں نے نکالا۔سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رُکوانے کی درخواست کی وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ کی جانب سے ہی دائر کی گئی ہے۔

حکومت ایک طرف طاقتور کیخلاف فیصلے نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں تو دوسری طرف پرویز مشرف کیخلاف کیس کا فیصلہ رکوانے سے حکومت نے اپنا کمزور پہلو ظاہر کردیا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ خطرات سے دوچار رہی ہے ، پی ٹی آئی حکومت اس وقت پاکستان کو درپیش اندرونی وبیرونی چیلنجز سے نبردآزما ہےاس لئے کیس کا فیصلہ چاہے جو بھی ہو پاکستان میں جمہوری عمل کو ہر صورت جاری رہنا چاہیے۔

Related Posts