دوسرے کی اصلاح اور خود فراموشی؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Correcting Others While Forgetting Oneself?

آج ہر شخص دوسرے پر تنقید کرنے میں مصروف ہے، گویا وہ خود مکمل اور بے عیب ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان ہیں، فرشتے نہیں۔ ہم سب میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور پائی جاتی ہے، لیکن اپنی اصلاح کرنے کے بجائے ہم دوسروں کی خامیوں کو تلاش کرتے اور انہیں مشورے دیتے ہیں کہ وہ خود کو کیسے بہتر بنائیں۔

یہ مسئلہ کسی ایک فرد یا شہر کا نہیں، بلکہ ہر فرد، ہر معاشرے اور ہر ملک کی کہانی ہے۔ جب ایک بچہ نابالغ ہوتا ہے، تو اُسے ہر سمت سے نصیحتیں ملتی ہیں، لیکن جیسے ہی اس میں شعور آتا ہے، وہ اس تضاد کو محسوس کرتا ہے کہ جو لوگ اُسے اچھائی سکھا رہے ہیں، وہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ نتیجتاً اس کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ عمل کے بغیر نصیحت کی کوئی حیثیت نہیں۔

یہ تضاد صرف بچوں تک محدود نہیں بلکہ ہم اپنی پوری زندگی میں ہر سطح پر اس کا سامنا کرتے ہیں—چاہے وہ استاد ہو، کوئی ادارہ، یا پورا معاشرہ۔

سوال یہ ہے کہ کیا اپنی اصلاح کے لیے ہمیں دوسروں کی مدد درکار ہے؟ تحقیق بتاتی ہے کہ انسان جب تک خود نہ چاہے، وہ کبھی نہیں بدل سکتا۔ لاکھوں دلیلیں اور مثالیں دی جائیں، تب بھی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان خود دل سے نہ چاہے۔

بطور انسان، ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہماری بات سنیں، لیکن کوئی سننے کے لیے تب تک تیار نہیں ہوتا جب تک وہ خود کسی تجربے سے نہ گزرے۔ یہ ذہنی تضاد ایک ایسی بیماری بن چکی ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ لوگ خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں، مگر دنیا کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ہمارے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں قول و فعل کا مکمل امتزاج نظر آتا ہے۔ جو فرمایا، اُس پر عمل بھی کیا۔ مگر آج ہم صرف مذہبی باتیں کرتے ہیں، مذہب کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، مگر اندر سے مذہبی نہیں ہوتے۔

ہمارے دین کی بنیاد قرآنِ مجید ہے، جس میں بار بار “بسم اللہ الرحمن الرحیم” دہرایا گیا ہے، یعنی اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ ہم ہر کام اللہ کے نام سے شروع کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر دن کا آغاز موبائل فون سے کرتے ہیں اور اختتام بھی اسی پر ہوتا ہے۔

ہمیں اللہ صرف مشکلات میں یاد آتا ہے۔ ہم وظائف، تعویذات اور رسمی عبادات میں الجھ کر اس ذاتی تعلق کو بھول چکے ہیں جو اللہ سے دل کے ذریعے قائم ہونا چاہیے۔ آج دنیا کے بگڑتے حالات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے دین کو چھوڑ کر، دین کے ٹھیکیداروں کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کر لیا ہے۔

اب ہر مذہب کے پیروکار اپنے اصل مذہب کی تعلیمات کے بجائے، مذہبی رہنماؤں کی ذاتی باتوں کو ترجیح دیتے ہیں، جو اکثر ذاتی مفاد پر مبنی ہوتی ہیں۔ حالانکہ ہر مذہب انسان کو خود سے سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔

ہر مذہب یہ سکھاتا ہے کہ دوسروں پر تنقید نہ کریں، کسی کو حقیر نہ سمجھیں—چاہے وہ گھر کا فرد ہو یا دفتر کا ساتھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر گھر میں ایک ’لیڈر‘ ہوتا ہے جو سب پر اپنا حکم چلانا چاہتا ہے، اور یہی رویہ اداروں اور معاشرے میں بھی عام ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔

دنیا کے کسی مذہب میں غلامی کی اجازت نہیں، مگر ہم آج بھی ذہنی، معاشی اور معاشرتی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ والدین نافرمانی پر بچوں کو بدتمیز قرار دیتے ہیں، شوہر بیوی کو نافرمان کہتا ہے، اور بیوی شوہر کی غلام نہ بننے کی سزا بھگتتی ہے۔

شوہر جب کام پر جاتا ہے تو خود بھی غلامی کا شکار ہوتا ہے، اور جب وہ اس غلامی سے انکار کرتا ہے، تو اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ یہی غلامی اداروں میں بھی نظر آتی ہے، جہاں کام تب تک نہیں ہوتے جب تک حکم نہ مانا جائے۔

اگر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے، تو سیاسی افراد صرف ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو ان کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی لوگ جب پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں، تو جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں مگر ڈکٹیٹر شپ کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔

آج ہر انسان کسی نہ کسی شکل میں پریشان ہے، غلامی سے تنگ ہے۔ نوجوان گھر چھوڑ رہے ہیں، خواتین رشتے توڑ رہی ہیں، مرد نفسیاتی دباؤ میں آکر دنیا کو اپنی تکلیف کی وجہ سمجھتے ہیں۔

اگر ہم خود کو بدل لیں، اپنے قول و فعل میں یکسانیت پیدا کریں، لوگوں کی مدد کریں، انسانیت کو سمجھیں، اور مذہب کو خود پڑھیں نہ کہ صرف دوسروں سے سنیں—تو ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

اگر حکومت اپوزیشن پر تنقید کی بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دے، تو عوام خود اسے پسند کریں گے۔ سچ کبھی چھپایا نہیں جا سکتا، اگر دنیا بہتری چاہتی ہے تو ہر ملک کو آمریت چھوڑ کر حقیقی جمہوریت اپنانی ہوگی۔

ہمیں زمینوں کی جنگ کے بجائے انسانیت کی جنگ لڑنا ہوگی۔ آج ہر ملک دوسرے کو معاشی طور پر کمزور کرکے خود کو طاقتور بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر اگر یہی قوت اپنی معیشت کو بہتر بنانے پر صرف کی جائے، تو دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔

اسی طرح، مذہبی رہنما بھی دوسروں کے مذاہب پر تنقید کرنے سے پہلے خود کو اپنے مذہب کے مطابق بہتر بنائیں۔ جب تک ہم تنقید کے اس تسلسل کو نہیں روکیں گے، اور انسانیت کو ایک پیدائش سے لے کر موت تک کا مقدس سفر نہیں سمجھیں گے، ہم ایک پریشان حال دنیا میں ہی رہیں گے۔

آج دنیا کو جنت بنایا جا سکتا ہے—بس انسانیت کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔

عالمی ادارے اگر صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کریں، تو بڑی تبدیلی ممکن ہے۔ مگر یہ ادارے شاندار دفاتر میں بیٹھ کر ان لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں جو ان کی خوشامد کرتے ہیں۔ وہ عوام کی رسائی سے دور ہیں۔

آج کا بچہ دنیا میں آتے ہی جھوٹ، نفرت اور خود غرضی کو دیکھتا ہے۔ گھر ہو، شہر ہو یا دنیا—سب جگہ باتیں تو اچھی کی جاتی ہیں مگر عمل صرف ذاتی مفاد تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں: “دنیا خراب ہوگئی ہے۔”

دنیا کو بدلنے کے لیے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اپنے بچوں، بیوی، شوہر اور اردگرد کے لوگوں کو غلام نہ بنائیں بلکہ ان کے جذبات کو سمجھیں۔ ہر انسان منفرد ہے، اسے اپنی سوچ اور شخصیت کے ساتھ قبول کریں، نہ کہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

Related Posts