کالعدم تحریک طالبان کیلئے عام معافی، کیا پاکستان اس کے اثرات کیلئے تیار ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

government ready for release of TTP terrorists

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا اتنی تیزی سے بدل جائے گی، شاید یہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا، طالبان جنہیں امریکا دہشت گرد قرار دیتا رہا، بعد ازاں ان سے مذاکرات کیے اور اب وہ افغانستان کے حکمران بن گئے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کو پہلے طالبان کا حصہ سمجھا جاتا تھا تو کہا گیا کہ پاکستانی اور افغان طالبان الگ الگ ہیں، لیکن بعد میں واضح ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔

جب طالبان نے یہ کہا کہ ہم ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کریں گے تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہ انہیں اپنا ساتھی سمجھتے ہیں۔پھر پاکستان کی نئی پالیسی سامنے آئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے تو عام معافی مل سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر کالعدم تحریکِ طالبان کیلئے عام معافی کا اعلان کیا گیا تو کیا پاکستان اس کے اثرات کیلئے تیار ہے؟ کیونکہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو تاحال افغان طالبان کنٹرول نہیں کر پائے۔ کیا ٹی ٹی پی کے طالبان ہتھیار ڈالنے کے بعد دوبارہ دہشت گردی نہیں کرسکتے؟آئیے تمام سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اورپاکستان

گزشتہ ماہ 30 ستمبر کو ٹانک میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں پاک پتن سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ کیپٹن سکندر شہید ہوگئے۔ ٹی ٹی پی کے کمانڈر خوازہ الدین عرف شیر خان کو ہلاک کردیا گیا۔

اس سے 3 روز قبل 27 ستمبر کو سی ٹی ڈی نے کارروائی کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد احسان اللہ عرف طلحہ کو ضلع بونیر سے گرفتار کیا۔ 2009 میں بونیر اور دیگر علاقوں میں بم نصب کرنے والے احسان اللہ کی گرفتاری پر 20لاکھ انعام مقرر تھا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا 23ستمبر کو کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے 350 سے 500 لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں جنہیں کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔ہم نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو معاف کرنے کے متعلق ابھی فیصلہ نہیں کیا۔

قبل ازیں 20 ستمبر کو شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا، ٹی ٹی پی کا کمانڈر صفی اللہ جو این جی او کی 4خواتین اور ایف ڈبلیو او کے انجینئرز کی اموات کیلئے مطلوب تھا، وہ آپریشن کے دوران ہلاک ہوگیا۔

آج سے کم وبیش 2ماہ قبل کراچی سے کالعدم ٹی ٹی پی کے 2 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے دستی بم برآمد ہوئے۔ یہ دہشت گرد افغانستان سے تربیت حاصل کرکے پاکستان آئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ 19جولائی کو ٹی ٹی پی کے 2 دہشت گرد سیف اللہ عرف محسن عرف صدام اور حضرت بلال عرف بلال سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہونے کے باعث گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے 2013 میں نیٹو کے کنٹینر کو آگ لگا دی تھی۔

بھارتی خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس اورٹی ٹی پی

پاکستان میں دہشت گردی کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی را، افغان ایجنسی این ڈی ایس اور ٹی ٹی پی سمیت دیگر کالعدم تنظیموں پر عائد کیا جاتا ہے اور یہ نظریہ پاکستان میں عام ہوچکا ہے کہ این ڈی ایس، را اور ٹی ٹی پی مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر 8 جولائی 2021 کو ایف آئی اے کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ افغان ایجنسی این ڈی ایس نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستانی شناختی کارڈ دلوائے بلکہ القاعدہ کے دہشت گردوں کو بھی نادرا سے ہی سی این آئی سی دلوائے گئے۔ 

وزیر اعظم عمران خان کا بیان

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان کے کچھ گروپس حکومت سے بات چیت کے متمنی ہیں۔ ہم بھی ان کے کچھ گروہوں سے رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرکے عام پاکستانی شہری بنانے کیلئے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ مذاکرات میں افغان طالبان ثالث ہیں اور یہ عمل افغانستان میں جاری ہے۔ اگر ٹی ٹی پی ہتھیار ڈالے تو معاف کردیں گے۔ یہ لوگ عام شہری کی طرح رہ سکیں گے۔ 

اپوزیشن کی تنقید 

حزبِ اختلاف کے سیاسی رہنماؤں بشمول رانا ثناء اللہ، حنا ربانی کھر اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیر اعظم کے بیان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حکومت اپوزیشن رہنماؤں کا تو کڑا احتساب کرتی ہے اور ٹی ٹی پی کیلئے عام معافی کا اعلان؟ یہ تضاد کیوں؟ کیا اے پی ایس کے ذمہ داروں کو این آر او دیا جارہا ہے؟

شیخ رشید کا جواب

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کا آغاز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اچھا کون ہے اور برا کون ہے۔ اے پی ایس واقعے کے ذمہ داران الگ ہیں۔ جو لوگ ہتھیار ڈال چکے ہیں، ان سے لڑائی نہیں کی جائے گی۔

دہشت گردی کے خطرات 

بلاشبہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف نہ ختم ہونے والی طویل ترین جنگ کو بلا وجہ جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ٹی ٹی پی کا ہتھیار ڈالنا بھی خوش آئند ہے تاہم حکومتِ وقت کو ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ کو عام معافی دینے سے قبل قوم اور پاک فوج، سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے شہداء کے لواحقین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ 

Related Posts