بشیر میمن کا حکومت پر ن لیگ کی قیادت کیخلاف جھوٹے مقدمات کیلئے دباؤ ڈالنے کاانکشاف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Bashir Memon reveals govt pressurized him to file cases against Justice Isa, PML-N leaders

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کیلئے دباؤ ڈالا گیا لیکن میں نے انکار کردیا،ن لیگ کی قیادت کیخلاف بھی جھوٹے مقدمات بنانے کیلئے زور دیا گیا۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایاکہ مجھے وزیراعظم ہاؤس بلا یا گیا جہاں عمران خان سے ملاقات ہوئی، وزیراعظم نے مجھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کا کہنا،بشیر میمن نے بتایا کہ فروغ نسیم جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس بناناچاہتے تھے۔

بشیر میمن نے بتایاکہ وزیراعظم نے مجھے کہا کہ آپ قابل افسر ہیں کام شروع کریں ہمت کریں آ پ کرسکتے ہیں، اس وقت تک مجھے نہیں پتا تھا کہ کیس کیا ہے، شہزاد اکبر کے کمرے میں گئے تو کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانا ہے اور انکوائری کرنی ہے۔

فروغ نسیم ایف آئی اے کے کیس بنانے کیلئے بضد تھے میں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کیخلاف انکوائری ایف آئی اے کا نہیں سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ہمارے ٹی آر اوز میں یہ نہیں آتا، انہو ں نے کہا کہ ایف بی آر اور آپ مل کر انکوائری کرو جسے میں نے مسترد کردیا۔

بشیر میمن نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، کیپٹن صفدر اور سلمان شہباز کیخلاف کیس بنانے کیلئے زیادہ زور تھا، مریم نواز کے خلاف ایجوکیشن ریفارمز پر انکوائری کیلئے کہا گیا، میں نے کہا چٹھی لکھ دیں مگر وہ چٹھی نہیں آئی، جج ویڈیو اسکینڈل میں مریم نواز کی پریس کانفرنس پر بھی دہشتگردی کا کیس بنانے کیلئے کہا گیا، میری آخری سروس تھی پہلے کبھی نہیں گھبرایا اب کیوں گھبراتا، مجھے میں کیریئر کے عروج پر پہنچ چکا تھا مجھے توسیع کی ضرورت نہیں تھی، ن لیگ کے لئے میرے دل میں سافٹ کارنر کیوں ہوگا، ن لیگ نے مجھے کوئی فیور نہیں دیا مجھے سینیارٹی پر گریڈ ملا۔

بشیر میمن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کیخلاف کارروائی ایف آئی اے کا مینڈیٹ نہیں تھا، نیب صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے کیس کرسکتا ہے اس لیے نیب سے کیس کروالیے، چیف ایگزیکٹو وزیراعظم عمران خان نے مجھے کہا کہ میں نے نیب سے کہا اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگیا اسے وفاداری کہتے ہیں۔

وزیراعظم نے مجھے کہا تھا کہ محمد بن سلمان کسی کو جو کہتا ہے اس کا کوئی سرکاری محکمہ اسے منع نہیں کرتا، تم ہر بات میں کہتے ہو آئین قانون یہ کہتا ہے،میں نے کہا سعودی عرب میں بادشاہت ہے، پاکستان میں جمہوریت ہے صرف گرفتار نہیں کرنا ہوتا عدالت میں جرم بھی ثابت کرنا ہے، ہمیں دستاویز چاہئے ہوتی ہیں، ثبوت چاہئے ہوتا ہے ہم 14روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں لے سکتے، وہ چاہ رہے تھے کہ وہ جو کہہ دیں وہی قانون ہوجائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم ایف آئی اے کی تحقیقات پر اثرانداز نہیں ہوں گے، فواد چوہدری

بشیر میمن نے کہا کہ زیادہ تر زور نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، احسن اقبال، جاوید لطیف، شاہد خاقان عباسی ،رانا ثناء اللہ ، خواجہ آصف ، خرم دستگیر خان، مریم اورنگزیب، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر، اسفند یار ولی، امیر مقام اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کیخلاف کیس بنانے کیلئے تھا، ان کا ہر چیز پر موقف تھا کہ اپوزیشن کو چھوڑنا نہیں ہے، یہ خواجہ آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانا چاہتے تھے، اقامہ رکھنا جرم نہیں یہ ورک پرمٹ ہے، اقامہ رکھنا غداری کے زمرے میں کیسے آگیا، میں کہتا تھا غداری کا کیس بنانے کیلئے عدالت میں ثبوت دینا ہوگا کہ انہوں نے کون سا ملکی راز دبئی میں کسی کو دیا، وہ کہتے تھے فی الحال پکڑو پھر دیکھیں گے۔

مریم نواز کیلئے بھی وزیراعظم نے کہا کہ فی الحال اس بات پر پکڑلو کہ انہوں نے پریس کانفرنس کر کے جج ارشد ملک کو ٹیررائز کردیا، میں نے کہا کہ پریس کانفرنس پر پیمرا کا قانون لاگو ہوسکتا ہے، سوشل میڈیا پر فرسٹ لیڈی کی تصویر شیئر ہونے پر مریم نواز کیخلاف دہشت گردی کا مقدمہ کرنے کیلئے کہا گیا، میں نے کہا کہ یہ دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا اس پر بدمزگی ہوئی۔

Related Posts