گریٹر اقبال پارک ہراسگی کیس، عائشہ اکرم نے ریمبو کو گرفتار کیوں کروایا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گریٹر اقبال پارک ہراسگی کیس، عائشہ اکرم نے ریمبو کو گرفتار کیوں کروایا؟
گریٹر اقبال پارک ہراسگی کیس، عائشہ اکرم نے ریمبو کو گرفتار کیوں کروایا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رواں برس 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک ہراسگی کیس سامنے آیا تو پوری قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک طبقے نے عائشہ اکرم کو ہی ہراسگی کا ذمہ دار ٹھہرایا تو دوسرا ٹک ٹاکر خاتون کے حق میں دلائل دیتا نظر آیا تاہم ہراسگی کیس میں اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب خاتون نے اپنے ہی ساتھی ریمبو پر الزامات عائد کرکے اسے گرفتار کروا دیا۔

آج گرفتار ملزم ریمبو کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آگیا ہے۔ ریمبو کا کہنا ہے کہ غلطی نہ عائشہ اکرم کی ہے، نہ میری۔ عائشہ جس کے ساتھ جانا چاہتی تھی اس کے ہاں انتقال کے باعث ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ مجھے جانا پڑا تاہم عائشہ اکرم نے ریمبو کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کی ہے۔ آئیے ہراسگی کیس کے تمام تر حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

گریٹر اقبال پارک میں ہراسگی کا واقعہ

جشنِ آزادی کے روز یعنی 14 اگست کو مینارِ پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر کو ہراسگی اور بد تمیزی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کی ویڈیوز 3 روز بعد سوشل میڈیا پر سامنے آئیں۔

سیکڑوں نوجوانوں کے مجمعے نے عائشہ اکرم اور ساتھیوں پر تشدد کیا۔ خاتون ٹک ٹاکر کے کپڑے پھاڑے گئے اور اسے ہوا میں اچھالا گیا۔ لاہور پولیس تمام تر واقعے سے مکمل طور پر لاعلم نظر آئی۔

بعد ازاں پولیس نے سوشل میڈیا پر واقعے کی پریشان کن ویڈیوز سامنے آنے پر 400 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا اور درجنوں گرفتار ہوئے۔ سوشل میڈیاصارفین نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ 

ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی 

واقعے کے کچھ روز بعد 20 اگست کو 20 ملزمان تفتیش کیلئے سی آئی اے کے حوالے کیے گئے۔ گرفتار افراد کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان بتائی گئیں جنہیں مینارِ پاکستان سے ملحقہ علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔

لاہور پولیس کا کہنا تھا کہ تمام افراد کی تصویریں واقعے کی فوٹیجز سے بنا کر انہیں شناخت کیلئے نادرا بھجوایا گیا۔ پھر زیر حراست افراد کی شناخت کیلئے نادرا سے رپورٹ بھی حاصل کی گئی تاکہ شناخت کا عمل مکمل ہوسکے۔ 

شناخت پریڈ سے معذرت  اورملزمان کی رہائی 

اگست میں خاتون ٹک ٹاکر سے بد تمیزی ہوئی۔ پولیس نے 144 ملزمان کو گرفتاری کے بعد 28 اگست کو شناخت پریڈ کیلئے پیش کرنا تھا، تاہم عائشہ اکرم نے جیل میں آمد سے طبی وجوہات کے تحت معذرت کرلی۔

داتا کی نگری لاہور کی عدالت نے گریٹر اقبال پارک کیس میں شناخت نہ ہونے پر 98 ملزمان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اسی مقدمے میں لاہور کی ایک اور عدالت نے 2 ملزمان کی عبوری ضمانت 14ستمبر تک منظور کی۔ 

عائشہ اکرم کا بیان

اپنے انٹرویو میں عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ ہراسگی کے واقعے سے قبل میں نے مکمل کپڑے پہنے تھے۔ کچھ کہنے سے قبل ہی میرا سب کچھ اتارا گیا۔ سیکورٹی گارڈ نے محفوظ جگہ پر رکھا تاہم شہریوں کا ہجوم تاریں اور جنگلے توڑ کر اندر گھس گیا۔

ٹک ٹاکر خاتون نے کہا کہ ہم نے 15 پر 2 بار کال کی، کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔ ساڑھے 6 بجے سے لے کر 9 بجے تک تشدد کیا گیا۔ میرے بالوں کو کھینچا گیا۔ مجھے ان لوگوں کی شکلیں یاد ہیں جنہیں سامنے آنے پر پہچان سکتی ہوں۔ مجھے برہنہ کرنا کسی کا حق نہیں تھا۔ کیا یہ پاکستان کی بیٹی ہونے کی سزا ہے؟

ریمبو کا ویڈیو بیان

گزشتہ روز عائشہ اکرم کی درخواست پر ریمبو کو گرفتار کیا گیا۔ ریمبو کا اپنے ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ عائشہ کو گریٹر اقبال پارک لے جانا میرا فیصلہ نہیں، جس کے ساتھ اس نے پارک جانا تھا، اس کے بھائی کی وفات ہوگئی تھی۔ پولیس نے ریمبو سمیت 8افراد کو گرفتار کیا ہے۔

عامر سہیل عرف ریمبو کے علاوہ دیگر گرفتار ملزمان میں ظفر، محسن، حسنین، منصب، صدام، بلال اور آصف شامل ہیں۔ عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ گریٹر اقبال پارک جانے کا پلان ریمبو نے بنایا تھا۔

متاثرہ خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریمبو کے پاس میری نازیبا ویڈیوز ہیں جو مجھے بلیک میل کرتا ہے۔ اب تک 10 لاکھ روپے لے چکا ہے۔ میری تنخواہ میں سے آدھے پیسے ریمبو لیتا تھا۔ ریمبو اور اس کا ساتھی بادشاہ مل کر ٹک ٹاک گینگ چلاتے ہیں۔ 

حقیقت کیا ہے؟

اس کیس میں ہراسگی سے متاثرہ خاتون کے ریمبو پر الزامات اور پھر ریمبو کے بیان کو مکمل طور پر حقیقت سمجھنا ضروری نہیں کیونکہ بیانات اور الزامات ہر کیس کا حصہ ہوتے ہیں جن پر تحقیقات کی جاتی ہیں۔

بد تمیزی، ہراسگی اور تشدد سے متاثرہ خاتون عائشہ اکرم نے تمام تر واقعے کا ذمہ دار ریمبو کو ٹھہرایا ہے جبکہ ریمبو کہتا ہے کہ غلطی میری ہے نہ عائشہ اکرم کی۔ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن شارق جمال نے بھی رابطہ کرنے پر میڈیا سے بات سے انکار کیا ہے۔

لہٰذا عائشہ اکرم ہراسگی کیس میں تحقیقات کے نتائج اور عدالتی فیصلے سامنے آنا باقی ہیں۔ جب تک کیس کا حتمی فیصلہ نہ ہوجائے، واقعے کے ذمہ داران کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ مینارِ پاکستان میں خاتون کو ہراساں کرنے والے درجنوں یا سیکڑوں افراد کو گریٹر اقبال پارک کس نے بھیجا تھا۔ 

Related Posts