آٹو سیکٹر کو ٹیکس میں چھوٹ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی سے ان صارفین کو بڑے پیمانے پر فائدہ ہو گا جو اپنی ذاتی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے آٹو سیکٹر کو ایک بار پھر ٹیکس میں کمی کی ایک بہت بڑی سہولت فراہم کی ہے۔ لیکن جیسا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ فوائد کبھی بھی صارفین کو نہیں پہنچے اور نہ ہی اس سے معیشت پر کوئی خاص اثر پڑتا رہا ہے۔

آٹو موٹو سیکٹر پاکستان کا ایک بڑا صنعتی شعبہ ہے، اور اس میں معیشت کا رخ تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ حکومت ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو کنٹرول کرتی ہے لیکن طاقتور آٹو انڈسٹری نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے پالیسیوں میں ہیرا پھیری کی ہے۔ آٹو سیکٹر کی کارٹلائزیشن کی وجہ سے ہم مہنگے داموں گاڑیاں خریدتے ہیں جبکہ اسی ماڈل کی گاڑیاں دیگر ممالک میں سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں۔

حکومت نے ایک بار پھر گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اس کا اعلان وفاقی بجٹ میں کیا گیا تھا کہ چھوٹی کاروں پر ٹیکس کو کم کیا جائے گا۔ حکومت نے مقامی طور پر تیار کردہ کاروں پر 1 ہزار سی سی تک کی کاروں پر ایف ای ڈی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) کو ہٹا دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اپنے بجٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ٹیکس سے متعلق امدادی اقدامات سے اس سال کاروں کی پیداوار کو 3 لاکھ تک لے کر جائیں گے جبکہ اگلے مالی سال میں یہ پیداوار 5 لاکھ تک لے کر جائیں گے۔

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسروبختیار نے دعویٰ کیا ہے کہ مقامی گاڑیوں کی طلب میں اضافے سے معاشی نمو کے 6٪ ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی جس کا حکومت نے عزم کررکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاروں کی لوکل صنعت کو فروغ دینے کے لئے پرکشش مراعات مرتب کی گئیں ہیں۔ اگر ٹیکس اقدامات کے باعث کار کمپنیاں قیمتوں میں کمی نہیں کرتی ہیں تو حکومت اگلے ماہ متوقع نئی آٹو پالیسی میں گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے گی۔

آٹوموبائل سیکٹر نے ہمیشہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے بغیر پالیسیوں اور ٹیکس سے نجات کے اقدامات میں ہیرا پھیری کی ہے۔ جبکہ آٹو سیکٹر نے ہمیشہ کار کی درآمد روکنے کے لئے لابنگ کی ہے اور ری کنڈیشن گاڑیوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی بھی کی ہے۔ جس کی وجہ صارفین مہنگی گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ دریں اثنا کار کمپنیوں کا منافع کئی گنا بڑھ چکا ہے جبکہ وہ ٹیکس کے سارے فوائد خود ہضم کرجاتے ہیں۔

حکومت کا اولین مقصد کاروں کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ ترقی اور اس سے حاصل شدہ ٹیکسز سے معیشت کا استحکام پہنچانا ہے۔ بزنس کمیونٹی نے ٹیکسز میں چھوٹ کا ہمیشہ غلط استعمال کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کو نقصان پہنچایا ہے۔ ٹیکسز میں چھوٹ کے بعد بھی کار کمپنیاں قیمتوں میں کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کارٹیلائزیشن کی حوصلہ شکنی کرے اور قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کرے ۔

حکومت کو چاہیے کہ آٹو سیکٹر کو ٹیکسز میں چھوٹ سے گریز کرے، کیونکہ ملک پاکستان میں انفراسٹرکچر اور روڈ نیٹ ورک اتنا موثر نہیں ہے کہ ہر سال 5 لاکھ نئی گاڑیوں کو بوجھ برداشت کرسکیں۔ بجلی کی گاڑیاں متعارف کرانے سے بھی معاملہ حل نہیں ہوگا کیوں کہ ہم دنیا کی ایک مہنگی ترین بجلی پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان تیل کی پیداوار میں پیچھے ہے لہذا ہمیں پٹرولیم مصنوعات کو درآمد کرنا پڑتا ہے جس سے گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کاروں کی تعداد بڑھنے سے ہمارے درآمدی بل میں اضافہ ہوگا اور ہمارے موجودہ اکاؤنٹ کو مزید خراب کردے  گا۔ کیونکہ ہم مقامی وسائل سے کاریں تیار نہیں کرتے بلکہ درآمدی سامان سے گاڑیاں تیار کرتے ہیں۔

حکومت کو بجائے روڈ نیٹ ورک کو بہتر بنانے اور ایک موثر عوامی ٹرانسپورٹ کی تیاری پر توجہ دے ۔ ایک ترقی یافتہ ملک وہ نہیں جہاں غریب کاریں خرید سکے لیکن جہاں امیر پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے شہروں کو بڑے پیمانے پر ٹرانزٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔ آٹو صنعت معیشت کو چلائے گی حکومت کو اس پر بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے۔

Related Posts