مصیبت اور انسانی کردار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

انسان عموماً مصیبت سے دور بھاگتا ہے لیکن یہ مصیبت ہی ہے جس کی بھٹی میں کندن بن کر انسان کے کردار کی بہترین خصوصیات دنیا کے سامنے آجاتی ہیں۔

اس کیلئے فرعون کی زوجہ حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے 4 خواتین کے ایمان کو کامل قرار دیا جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاک دامن والدہ حضرت بی بی مریم علیہا السلام، ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا، اور فرعون کی زوجہ حضرت آسیہ علیہا السلام شامل ہیں جو ہمارے لیے ایک زندہ مثال ہے۔

کیا حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا نے کبھی اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا کہ اس نے فرعون کو ان کا شوہر کیوں بنایا؟ نہیں، ہم نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں پڑھی کہ اللہ کے سامنے اپنی شادی کسی ظالم سے ہونے پر افسوس کا اظہار کیا جائے اور یہ سوالات تاحال جواب طلب ہیں کہ کیا بی بی آسیہ علیہا السلام فرعون کے بغیر اس مقام تک پہنچ سکتی تھیں، کیا آپ علیہا السلام کا ایمان اس نقطۂ کمال تک پہنچ سکتا تھا؟

فرعون کے بد ترین ظلم و ستم کے جواب میں حضرت آسیہ علیہا السلام نے جو دعا فرمائی، اس کا ذکر سورۂ تحریم کی آیت نمبر 11 میں اس طرح ملتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے اپنے پاس جنت میں گھر عطا فرما، مجھے فرعون اور اس کے شر سے نجات دے اور ظالم لوگوں سے بچا۔ یہ دعا ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت آسیہ نے اللہ سے دعا کی کہ فرعون کی جگہ اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرما اور فرعون کے محل کی جگہ جنت کا محل دے۔ آپ نے اپنی وفات سے قبل جنت میں اپنا مقام دیکھا اور ہنسنے لگیں کیونکہ چٹان جسم سے ٹکرانے سے پہلے ہی اللہ نے ان کی روح قبض کرلی تھی۔

اللہ کی اس شکر گزار اورانتہائی صابر و شاکر ولیہ حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی کہانی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آزمائش یہاں کی غیر یقینی صورتحال ہے۔ دنیا میں ہماری زندگی ایک کے بعد ایک پریشانی کے ساتھ مسلسل آزمائش کا شکار رہتی ہے۔ اس لیے جب کبھی سکون کا سانس نصیب ہوتا ہے تو اس کے بعد نیا چیلنج ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ انتخاب کرنا ہے کہ ہم پہاڑ سے نیچے گرنے والے شخص کی طرح ڈر محسوس کریں یا پھر اپنے مسائل کے حل کیلئے صرف اللہ کی بابرکت ذات پر بھروسہ کریں۔

مشکل اور تکلیف دہ وقت میں دوسروں کو مشورہ اور تسلی دینا اپنے مقابلے میں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ جب کوئی ایسے وقت میں ہمیں تسلی دینے کی کوشش کرے تو عام طور پر ہم سننا بند کردیتے ہیں، جبکہ مصیبت کے وقت میں قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔

کسی بھی معاشرے کے کردار اور فطرت کا تعین مشکلات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر رسول اللہ ﷺ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ مکہ سے ہجرت نہ کرنی پڑتی، اگر کفار دعوتِ اسلام کو بغیر کسی حیل و حجت اور اعتراض کیے قبول کرلیتے تو آج اسلام کے متعلق ہمارے پاس غور کرنے کیلئے کیا مثال ہوتی؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

غور کریں کہ اگر غزوۂ بدر یا احد نہ ہوا ہوتا تو ہمیں نظم و ضبط کی اہمیت، سپہ سالار کے حکم کا احترام، جنگی حکمتِ عملی اور ذاتی عزائم پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینے کی اہمیت کیسے پتہ چلتی؟ اللہ تعالیٰ راہِ راست پر مومنین کی مدد کیسے کرتا ہے؟ آج بھی غزوۂ احد سے یہ سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سختیوں سے گزرنے والے ہمارے کچھ قریبی دوست بھی ہیں۔ اگر جنگِ خندق میں مسلمان شکست کھا جاتے تو مدینہ کی ریاست کا خاتمہ ہوسکتا تھا جس سے اسلام کا بھی دنیا سے خاتمہ ہوجاتا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے صرف خندق تعمیر نہیں فرمائی بلکہ وہ ایک نئی دنیا تھی جس سے ہم آج تک مستفید ہو رہے ہیں۔ جنگِ خندق سے شروع ہونے والی بہت سی کہانیاں اور اسباق ناقابلِ فراموش حد تک سبق آموز ہیں۔ اگر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو خندقیں نہ ہوتیں کیونکہ خندق کھودنے کا خیال آپ نے مسلمان قوم کو دیا۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور اولوالعزمی کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ مشکل اور آسانی دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی بھلائی کا اہتمام فرمایا ہے۔ ہمیں مصیبتوں سے ڈرنا نہیں چاہئے کیونکہ وہ اللہ کے فضل سے ہماری روحوں کو اس طرح دھو دیتی ہیں جیسے دفن سے قبل غسل دینے کے باعث میت پاک ہوجایا کرتی ہے۔ 

Related Posts