جنوبی پنجاب صوبہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

موجودہ حکومت کے قیام کو چار سال ہونیوالے ہیں لیکن پی ٹی آئی کا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا انتخابی وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا،حکمران جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ صوبہ بنانے کیلئے پرعزم ہے لیکن اس کے پاس آئین میں ترمیم اور بل کو منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔

حکومت گزشتہ تین سالوں میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں ناکام رہی تاہم سینیٹ میں حال ہی میں ایک بل پیش کیے جانے کے بعد نئے صوبے کی تشکیل پر بحث ہوئی۔ وزیر خارجہ شاہ قریشی کاکہنا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی طرف پیش رفت ہوئی ہے لیکن اس مقصد کیلئے اپوزیشن کا ہاتھ ملانا اور اتفاق رائے کرنا ضروری ہے۔

جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے قیام کو نئے صوبے کی تشکیل کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈی جی خان، بہاولپور اور ملتان ڈویژنز کی خدمت کے لیے بنایا گیا سیکریٹریٹ اب مکمل طور پر فعال ہے۔ اس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس اور صوبائی محکموں کے سیکریٹریوں کے عہدے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ بجٹ اور روزگار کے مواقع کی یقین دہانی کرائی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خطے میں ناانصافی ہوئی ہے اور اختلافات کو کم کرنا ضروری تھا۔

مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ کاکل رقبہ تقریباً 52 فیصد اور پنجاب کی 32 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔اس کے باوجود اس خطے میں سب سے کم ترقی اور سب سے زیادہ غربت اور ناخواندگی کی شرح ہے۔

پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے 100 دنوں میں نیا صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھاجس پر کافی مقبولیت حاصل کی اور اس خطے میں قومی اسمبلی کی 50 میں سے 30 نشستیں جیتیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی حمایت کی ہے لیکن انتظامی مسائل کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس مسئلے کو ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے تاہم کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

جنوبی پنجاب صوبہ کی لسانی، نسلی یا قوم پرستی کی بنیاد پر تقسیم سے حکومت کو مشکلات کا سامناکرنا پڑسکتا ہے تاہم جنوبی پنجاب میں نئے انتظامی یونٹ کے قیام سے کئی مسائل حل ہوں گے اور ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اس لئے ضروری ہے کہ معاملے کو سیاسی چالبازی کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ خطے میں ترقی کے لیے کوششیں کی جائیں۔

Related Posts