ٹرانس جینڈرز سے یکجہتی کا عالمی دن، سماجی رویئے، مسائل اور ممکنہ حل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Transgender

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹرانس جینڈرز کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ہرسال 31 مارچ کو ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہونیوالے امتیازی سلوک کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔

2014 میں آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سمیت پوری دنیا کے ٹرانسجینڈرز سے یکجہتی کیلئے دن منایا گیا جبکہ 2015 میں دنیا بھر کے ٹرانس جینڈرز نے سوشل میڈیا پر آن لائن مہم میں ٹرانس جینڈرز کے مسائل کو اجاگر کیا ۔

ٹرانس جینڈرز کیا ہے ؟
ٹرانس جینڈر وہ افراد ہیں جو بالکل نارمل مردیا خاتون پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کی پہلی دہائی میںہر انسان میں جنس کی شناخت پیدا ہوتی ہے جبکہ یہ ٹرانس جینڈر افراد زندگی کی پہلی دہائی میں ہی سمجھ جاتے ہیں کہ وہ غلط جسم میں ہیں۔ آج تک تقریباً تمام ٹرانس جینڈر افراد نے یہی ہسٹری دی ہے یعنی بالکل الگ، دور پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لوگ بالکل ایک ہی الفاظ اور احساسات کے ساتھ اپنی کہانی بیان کرتے ہیں۔

لفظ ٹرانز مجموعی طور پر ایسے افراد کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کی موجودہ جنسی شناخت یا جنسی اظہار ان کی پیدائش کے وقت کے جنس سے مختلف ہو۔ یہ سِس جینڈر کی شناخت سے باہر کئی شناختوں کا احاطہ کرنے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔

لفظ سِس جینڈر ایسے افراد کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کی موجودہ جنسی شناخت یا جنسی اظہار ان کی پیدائش کے وقت جیسی ہو، یعنی اگر کوئی مرد پیدا ہوا ہے تو بڑے ہو کر بھی اس کی شناخت مرد ہی ہے، لفظ ٹرانس میں ٹرانس کے مجموعی معنی شامل ہیں۔

ٹرانس جینڈرز کی اصطلاح
تیسری جنسی شناخت کے لئے عمومی طور پر ٹرانس جینڈر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ٹرانس مرد ایسے مرد کو کہا جاتا ہے جس کو پیدائشی زنانہ خواص بھی تفویض ہوتے ہیں جبکہ ٹرانس عورت ایسی عورت ہے جس میں پیدائشی مردانہ خواص بھی پائے جاتے ہیں۔

ٹرانس مرد اور ٹرانس عورت کے مذکورہ خواص فطری اور پیدائشی ہوتے ہیں۔ تیسری جنسی خواص سے انسانی پیدائش نہ کوئی بیماری ہے جو کسی میڈیسن سےدور ہو سکتی ہے اور نہ ہی بطورتیسری جنس پیدا ہونے والی یا والے کی یہ اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے۔

اہم عادات وعلامات
1۔ٹرانس جینڈر
2۔ٹرانسسیکشیول
3۔کراس ڈریسر
4۔جینڈر کوئیر
5۔مرد سے عورت
6۔عورت سے مرد
7۔اینڈروجینس
8۔الگ جنسی رجحان
9۔خودمختار
10۔ رہن سہن

ٹرانس جینڈرز کی شناخت
مسلم ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی ٹرانس جینڈر افراد کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ معاشرتی، مذہبی اور ثقافتی سطح پر ٹرانس جینڈر اشخاص کو انسانی درجہ سے کم تر مخلوق تصور کیا جاتا ہے تاہم تیسری جنس کی قانونی شناخت کے بعد ٹرانس جینڈر اشخاص کے لئے عورتوں او رمردوں کے برابر انسانی اور قانونی حقوق کی جدوجہد کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے، 2004 میں سب سے پہلے برطانیہ نے ٹرانس جینڈر شناخت کا قانون منظور کیا اور آج کئی ممالک تیسری جنسی شناخت کے قوانین منظور کر چکے ہیں جبکہ پاکستا ن نے مئی 2018میں تحفظ حقوق برائے ٹرانس جینڈر کا قانون بنایا۔

سماجی رویئے
یکجہتی کا دن منانے کا مقصدٹرانس جینڈرز کی جدوجہد اور زندگی کو یاد کرنا ہوتا ہے جنہیں اپنی صنفی شناخت کی وجہ سے معاشرے میں نفرت و حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،پاکستان ہویا دنیا کی کوئی بھی ریاست ٹرانس جینڈرز کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے، عورت اور مردکے علاوہ تیسری جنسی ہمیشہ سے انسانی سماج کا حصہ رہی ہے مگر معاشرے نے تیسری جنسی شناخت کو عورت اور مرد کے برابر انسانی حقوق اور قانونی شناخت کا درجہ نہ دیامگر دور حاضر میں عالمی سطح پرمتعد ممالک تیسری جنسی شناخت کو قانونی شناخت دے چکے ہیں۔

مسائل اور ممکنہ حل
دنیا بھر میں ٹرانس جینڈرز کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں اکثر و بیشتر تشدد کا نشانے بنانے حتیٰ کہ موت کے گھات اتارنے کے واقعات بھی تسلسل سے رونما ہوتے ہیں، پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکا، برطانیہ اوردیگر ترقی یافتہ ممالک میں ٹرانس جینڈرز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

نوکریوں کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے ٹرانسجینڈر افراد جسم فروشی کے ذریعے گزربسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹرانس جینڈرز کو بھی ان کے جائز حقوق دیئے جائیں اور سماج کاحصہ تسلیم کیا جائے تاکہ ایک معاشرے کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

Related Posts