آئین شکنی کیس میں عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فردِ جرم میں ترمیم کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سزائے موت سنا دی ہے۔
سنگین آئین شکنی کیس کی سماعت کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ججز کے 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنایا۔
حکومت کی طرف سے پراسیکیوٹر علی ضیاء نے مشرف کے خلاف فردِ جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ کرنے کے لیے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنایا جائے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت مشرف کے مقدمے میں تاخیر کی خواہش مند ہے؟ مزید کسی کو ملزم بنانے کے لیے نیا مقدمہ دائر کرنا ضروری ہے۔
معزز جج نے استفسار کیا کہ کیا حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانا چاہتی ہے؟جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ شاید آج کا دن گزارنا چاہتے ہیں۔ عدالت میں درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار آپ کو معلوم ہونا چاہئے۔
بنچ سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ بینچ نے واضح کیا کہ ہم صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے نہیں۔
وکیلِ صفائی رضا بشیر نے درخواست کی کہ دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دائر کرچکے ہیں، عدالت سابق صدر پرویز مشرف کو سماعت کا موقع عنایت کرے۔
جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دئیے کہ سابق صدر چھ بار 342 کے تحت بیان ریکارڈ نہیں کروا سکے اور موقع ضائع کردیا، اب سپریم کورٹ نے ان کا یہ حق ختم کردیا ہے۔ استغاثہ اور وکیلِ صفائی دونوں ہی ملزم کے دفاع میں مصروف ہیں۔
بعدازاں خصوصی عدالت ججز نے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تفصیلی فیصلہ 38 گھنٹے میں سنا دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکنے کے لئے متفرق درخواست دائر کر دی۔
یہ درخواست 3 روز قبل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی گئی جس میں موقف اپنایا گیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی ہے اوراسے سماعت کا اختیار حاصل نہیں۔
مزید پڑھیں: خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکنے کیلئے متفرق درخواست دائر