اگلی حکومت کون بنائے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

موجودہ پارلیمنٹ کی مدت جولائی 2023ءمیں ختم ہوگی۔ اس لئے2022ءمیں اگلے انتخابات کا سوال بظاہر قبل ازوقت ہے۔ سیاسی حلقوں میں مگر اس پر بحث شروع ہوگئی ہے۔اہم لیڈروں، مقامی سیاسی دھڑوں اور انتخاب لڑنے کے خواہشمندوں میں صف بندی شروع ہوگئی ۔ بڑی جماعتوں میں کسی نہ کسی سطح پر سوچ بچار، جوڑ توڑ اور غور وفکر بھی چل رہا ہے۔ سوال سادہ ہے کہ اگلا انتخابی معرکہ کون مارے گا؟

اس سب کے پیچھے ایک سازشی نظریہ (Conspiracy theory)چل رہی ہے۔ کہا یہ جار ہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اگلے سال کی تیسری سہہ ماہی کے اختتام یعنی ستمبر، اکتوبر 2022میں عام انتخابات کرا سکتے ہیں۔اس کی دو بڑی وجوہات بتائی جار ہی ہیں۔ بعض اہم عہدوں کی مدت ختم ہونے سے پہلے ان کے سامنے انتخاب کرانا۔ دوسرا ایک سخت بے لچک موقف رکھنے والی عدالتی شخصیت کا اہم منصب سنبھالنے سے پہلے الیکشن ہوجانا۔شاعرانہ اصطلاح میں بات کریں تو کسی کے جانے اور کسی کے آنے سے پہلے محفل آرائی کی خواہش ۔

ویسے تو یہ سازشی تھیوری ہی ہے،مگر سیاسی کارکنوں کے تیز ناک اس میں حقیقت کی مہک محسوس کر رہے ہیں۔تینوں بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں اس حوالے سے باقاعدہ کام جاری ہے۔

تحریک انصاف کو مقتدر حلقوں کی طرف سے تمام تر سپورٹ کے باوجود دو خوف دامن گیر ہیں۔ اپنی بری کارکردگی اور عوام سے متعلقہ ہر اہم چیز (آٹا، گھی، چینی، پٹرول،بجلی ، گیس وغیرہ)کو بہت مہنگاکرنے کے بعد کس طرح ووٹ مانگنے جائیں؟ دوسرا خدشہ انہیںیہی ہے کہ کہیں کوئی اور جماعت ان کے سرپرست حلقوں کو ورغلانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ یوں انہیں دست شفقت کے بغیر ایک کڑا، مشکل الیکشن لڑتے ہوئے ووٹروں کی سفاکی سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔

تحریک انصاف کا پلان سادہ اور تین نکات پر مشتمل ہے۔ اپنی سب سے بڑی مخالف ن لیگ کو(مختلف حیلوں حربوں سے) مسلسل دباﺅ میں رکھا جائے تاکہ وہ الیکشن سے پہلے یکسو اور متحد نہ ہوسکے۔سیاسی ٹمپریچر ہائی رہے، شدید اختلاف کی فضا میڈیا اور سوشل میڈیا کے تعاون سے قائم رہے تاکہ الیکشن میں وہ اپنے ہارڈ کور سپورٹروں کو یہ کہہ سکیں کہ دیکھیں ہم نے کتنی مزاحمت کی اور شریف، زرداری خاندان کوNRO نہیں دیا۔ ممکن ہے انتخابات سے قبل حکومت کے آخری ایام میں انقلابی تقریریں بھی سننے کو مل جائیں۔۔۔ اپوزیشن نے کام نہیں کرنے دیا، سیاسی مافیاز سے نمٹنے کے لئے اکثریت ضروری ہے وغیرہ وغیرہ ۔

پی ٹی آئی کے پلان کا تیسرا نکتہ یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے کلاسیکل انداز میں الیکشن لڑا جائے۔ الیکٹ ایبلز اور طاقتور امیدواروں پر انحصار کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت ہونے کے تاثر کو استعمال کیا جائے ۔ تحریک انصاف کو اب سمجھ آگئی ہے کہ یہ تاثر کتنا اہم ہے؟سیاسی کارکن اور مقامی سطح پر طاقتور سیاسی پاکٹس ہمیشہ جیتنے والے امیدوار کا ساتھ دیتی ہیں۔ ووٹرز کا ایک حلقہ بھی پریکٹیکل ہو کر سوچتا ہے۔

ن لیگی الیکشن سٹائل میں ایک عنصر بڑے ترقیاتی پراجیکٹس اور میڈیا میں ان کی بھرپور پبلسٹی کمپین تھی۔ تحریک انصاف میگا پراجیکٹس تو نہیں شروع کر پائی۔ اب وقت بھی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگلا بجٹ عوام دوست دیا جائے، جس میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں معقول اضافہ ہو۔ کچھ چیزوں میں ریلیف دیا جائے، پٹرول ابھی مہنگا رکھا جائے اور اگلے بجٹ میں چند روپے کم کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ صحت کارڈ کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں۔ میڈیا مینجمنٹ اور تشہیر پر آج کل خرچ ہو رہاہے،آئندہ مہینوں میں یہ بجٹ بڑھتا جائے گا۔

مسلم لیگ ن کا اصل مسئلہ قیادت کے اندر تقسیم کا تاثر موجود ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سخت موقف اپنانے اوراپنے مخصوص نعروں کو آگے بڑھانے کا تاثر دیتے ہیں۔دوسری طرف شہباز شریف کا فارمولا سادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نرم اور معتدل بیانیہ کے ساتھ مقتدر قوتوں کو غیر جانبدار بنانا ہے تاکہ الیکشن میںہر ایک کے لئے کھلا میدان ہو، جو اچھا کھیلے جیت جائے۔ شہباز اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں ن لیگ اپنے طویل سیاسی تجربہ ،مضبوط سیاسی دھڑے بازی اور عوامی بے چینی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان مار سکتی ہے۔ن لیگ کو امید ہے کہ وہ الیکشن لے گی،سادہ اکثریت نہ لے سکی، تب بھی اس کے پاس مخلوط حکومت بنانے کی زیادہ آپشنزہوں گی۔کہا جاتا ہے کہ نواز شریف ان سب چیزوں پر ” ا ٓن بورڈ“ ہیں، وہ گاہے سخت موقف کا تاثر اس لئے دیتے ہیں تاکہ کوئی انہیں ایزی نہ لے اور سمجھوتہ آخرکار ہوجائے۔

سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ گہماگہمی پیپلزپارٹی نے پیدا کی ہے۔زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کو نگر نگر گھومنے اور سیاسی رابطوں، ملاقاتوں پر لگا دیا ہے۔ سندھ میں وہ خود فعال ہیں اور ہر پیش رفت پر ان کی گہری نظر ہے۔انہیں امید ہے کہ جنوبی پنجاب اور بعض دیگر علاقوں میں تگڑے امیدوار مل جانے سے پیپلزپارٹی اپنی نشستیں بڑھا سکتی ہے۔ بلوچستان میں وہ کئی اہم شخصیات شامل کر چکے ہیں،کے پی میں بھی وہ پارٹی کو فعال بنانا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو لگتا ہے کہ پورا زور لگا لینے سے وہ سادہ اکثریت نہ بھی لے سکے، تب بھی کسی معلق پارلیمنٹ کی صورت میں انہیں ساتھ ملائے بغیر مخلوط حکومت نہیں بن سکے گی۔

چھوٹی پارٹیوں کے اپنے داﺅپیچ اور اہداف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں نقصان اٹھایا ہے، بلدیاتی انتخابات میںوہ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع پر فوکس کریں گے، بلوچستان میں ان کی مضبوط پاکٹس ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس بار کراچی میں کچھ بہتر کارکردگی دکھائی، جماعت چاہتی ہے کہ بلدیاتی انتخاب اور پھر عام انتخابات میں کراچی سے چند نشستیں نکالی جائیں، جماعت کا دوسرا فوکس کے پی کے اضلاع دیر ، بونیر اور چترال ہیں۔ اے این پی کو امید ہے کہ وہ پشاور میں کچھ شیئر لے گی، وہ بلوچستان میں بھی اچکزئی صاحب کی پارٹی کا متبادل بننا چاہتی ہے۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں میں ممکن ہے الیکشن سے پہلے کوئی چھوٹا موٹا الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی فضا بن جائے۔

قبل از وقت الیکشن ہونے کی صورت میں ہر پارٹی کا اپنا پلان موجود ہے۔ مصیبت بس یہی ہے کہ الیکشن کی آندھی جب چلے، تب زیادہ تر پلان الٹ ہوجاتے ہیں، ایک آدھ ہی کامیاب ہو پاتا ہے۔ دیکھیں اس بار خوش نصیبی کس کے ساتھ ہمسفر ہے؟

Related Posts