بھارت میں انتہاپسندو ہندوؤں کو اللہ اکبرسے جواب دینے والی بہادر مسلمان لڑکی کون تھی؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

indian girl muskan

بھارت میں نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے حجاب کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔

 گزشتہ روز کرناٹک میں انتہا پسند ہندوؤں کے شر پسند نعروں کے جواب میں نہتی لڑکی مسکان کے اللہ اکبرکے نعروں کی گونج پوری دنیا میں پہنچ گئی ہے تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت میں مظالم کا نشانہ بننے والے مسلمان اپنے حق کیلئے جاگ گئے ہیں یا نہیں؟

بھارت میں مسلمان آبادی
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہندو مت کے بعد دوسرے نمبر پر مسلمان آبادی ہے اور بھارت میں مسلمانوں کی شرح آبادی 14 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 172 ملین سے زائد تھی۔بھارت کی مسلم آبادی انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتی آبادی ہے۔

مسلمانوں کی حالت زار
مسلمان بھارت میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں اور بھارت کے سیکولر آئین میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت میں صدر مملکت ، کرکٹ ٹیم کے کپتان، شوبز اور زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمان بھارت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نریندر مودی کے دور میں بھارت میں مسلمانوں کیلئے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ہندو توا ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو پریشان کرنا معمول کا حصہ بنا چکا ہے۔ بھارت کے مسلمان انتہائی خوف میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔

مسلمان طالبات
بھارت میں حالیہ دنوں میں مسلمان طالبات کے ساتھ ناروا سلوک میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بھارت کے تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں چند مسلمان طالبات کو مذہب کی بنیاد پر کلاس سے نکال دیا گیا تھا جس کے بعد وہ اسکول کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور تھیں جبکہ تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے۔

کرناٹک واقعہ
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں کالج کی پارکنگ میں ایک باحجاب طالبہ اپنی اسکوٹی پر داخل ہوتی ہے۔

بائیک پارک کرتے ہی درجنوں انتہا پسند ہندو طلبا گلے میں زعفرانی رنگ کا مفلر پہنے طالبہ کی جانب بڑھتے ہیں۔باحجاب طالبہ ڈرنے کی بجائے جنونی لڑکوں کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کالج کی عمارت کی جانب بڑھنے لگی جب کہ جنونی ہجوم لڑکی کا پیچھا کرتا رہا اور شدید نعرے بازی کرکے ڈرانے کی کوشش کی۔

واقعہ کے بعد کشیدگی
بھارت میں حجاب پر پابندی کیخلاف بھرپور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور حالات کشیدہ ہونے کے باعث انتظامیہ نے تین روز تک اسکولوں کی بندش کا اعلان کیا ہے ۔بھارتی ریاست کرناٹک کے اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

ریاست کرناٹک کے دو شہروں میں سیکڑوں کی تعداد میں شہریوں نے پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا۔تازہ مظاہروں کے دوران افسران کو ایک سرکاری سطح پر چلائے جانے والے کیمپس سے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔

مسلمان لڑکی کون تھی؟
کرناٹک میں جنونی ہندو انتہاپسندوں کو اللہ اکبر کے نعروں سے جواب دیکر راتوں رات پوری دنیا کی توجہ حاصل کرنے والی طالبہ مسکان بنت محمد حسین کا کہنا ہے کہ انتہاپسندوں کا تنہا سامنا کرنے سے بالکل خوفزدہ نہیں ہوئی،برقعہ پہننے پر مجھے انتہاپسندوں نے کالج میں داخل نہیں ہونے دیا، کالج کے پرنسپل اور لیکچرار میری مدد اور حفاظت کو آئے،مسکان نے مزید کہا کہ حجاب کیلئے احتجاج جاری رہےگا،یہ ایک مسلم لڑکی کی شناخت کا حصہ ہے۔

 

 

Related Posts