پاکستانی طلباء نے سمندری آلودگی ختم کرنے کیلئے سی بن ایجاد کرلی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کوئی بھی ایسی چیز نہیں جسے باصلاحیت پاکستانی طلباء ایجاد نہیں کر سکتے۔ دنیا کے پہلے پنسل جھولے سے لے کر مقامی مہران کاروں کو الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کرنے تک، ہم نے یہ سب کر لیا ہے۔

عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (یو آئی ٹی) کے ہونہار طلباء نے ایک خاص “بن” ایجاد کیا ہے جسے ‘سیبن’ کا نام دیا گیا ہے۔ ‘سیبن’ ساحل سمندر کی صاف کے کام آئے گا۔ ساحل سمندر پر جمع ہونے والا کچرا آلودگی کا باعث بنتا ہے جس کی صفائی کے لیے یہ ‘سیبن’ تیار کیا گیا ہے۔

ہر سال تقریبا 8 ملین ٹن پلاسٹک فضلہ سمندروں میں شامل ہو جاتا ہے، مگر اب یہ ‘سیبن’ اسے صاف کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے طالب علم نعمان احمد نے بتایا کہ انہوں نے یہ جدید آلہ خاص طور پر ڈاکیارڈ سے پانی کو صاف کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں 

کراچی کے نوجوان نے خطرناک جانوروں کیلئے چڑیا گھر بنالیا

کراچی کے طلباء نے مہران کار کو الیکٹرک گاڑی میں تبدیل کردیا

نعمان احمد کا کہنا تھا کہ ڈاک یارڈ کو ترجیحی بنیادوں پر صاف کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ عام طور پر گندگی اور تیل سے اٹا رہتا ہے۔ طالب علم نے بتایا کہ ‘سیبن’ کو ڈاکیارڈ کے قریب پانی میں نصب کیا جائے گا، جس سے ساحل سمندر پر موجود کچرے کو آسانی سے صاف کیا جاسکے گا۔ طالب علم نے بتایا کہ مشین کو مینول طریقے ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے اور اس کے ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے لے جایا جاسکتا ہے۔

نعمان احمد کا مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘سیبن’ کو ایک آلے کی مدد سے گہرے پانی میں چھوڑا جاتا ہے جس سے یہ پانی میں موجود تمام گندگی کو جذب کرلیتا ہے۔ ‘سیبن’ میں موجود سمر پمپ نامی ایک اور آلہ اپنی طاقت سے تیل کو پانی سے الگ کرتا ہے اور پانی کو فلٹر کرتا ہے۔ مشین کو چلانے کے لیے 1.5 کلوواٹ بجلی درکار ہوتی ہے۔

پروجیکٹ کے نگران پروفیسر عاطف فرید کا کہنا تھا کہ ‘سیبن’ صرف سمندری کچرے کو صاف نہیں کرتی بلکہ اس سے سمندر میں شامل ہونے والا صنعتی فضلہ بھی صاف کیا جاسکتا ہے۔

کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے آنے والا تیل جو سمندری پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ پروفیسر عاطف فرید کا کہنا تھا کہ ‘سیبن’ کی مدد سے حاصل ہونے والے اس تیل کو مارکیٹ میں 40 روپے فی لیٹر تک فروخت کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر عاطف فرید کا کہنا تھا کہ ‘سیبن’ کو تیار کرنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگا اور اس پر 75 ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکیاڑ کے علاقے میں دو سے تین ‘سیبن’ لگانے سے ایک ماہ کے اندر کچرے کا صفایا ہو جائے گا۔