تختِ لاہور کی جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اقتدار کی جنگ ہمیشہ سے ہی انسانی تاریخ کا حصہ رہی ہے اور جب تک مذہب یا عدل و انصاف کا پہلو شامل نہیں ہوا، جنگل کا قانون ہی رائج رہا جو بدقسمتی سے آج کے جدید ترین دور میں بھی رائج ہے۔

جنگل کا قانون کسے کہتے ہیں؟ آسان الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو اسے جس کی لاٹھی اس کی بھینس قرار دیا جاسکتا ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج جیسے الفاظ بھی ایسے ہی نظام کو واضح طور پر بیان کرنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک شخص بیوی کو ریڑھی پر لاد کر اس لیے ہسپتال لے گیا کیونکہ اس کے پاس ایمبولینس نہیں تھی۔ پاکستان کی مثال سامنے رکھیں تو ہسپتالوں سے صحت اور تعلیمی اداروں سے تعلیم غائب ہوچکی۔ ہر ادارے میں اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ عام ہے۔

عدلیہ کی بات کی جائے، سیاستدانوں کی یا پھر پولیس کی، ہر جگہ قانون کا بول بالا ہونے کی بجائے بد ترین ناانصافی اور رشوت ستانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کچھ ایسا ہی قصہ تختِ لاہور کی جنگ میں دیکھنے کو ملا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا پڑا۔ گورنر کو وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا اور لاہور ہائیکورٹ نے درخواست خارج کردی۔

اس تمام تر قصے میں اچھی بات یہ رہی کہ پنجاب میں گورنر راج لگانے یا پھر نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی نوبت نہیں آئی جس سے ملک مزید سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہوسکتا تھا۔

کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ فارمولا اپنے عروج پر اس وقت نظر آتا ہے جب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رسہ کشی اور محاذ آرائی میں مصروف ہوتی ہیں۔

جب کسی ایک سیاسی جماعت کو موقع ملتا ہے تو دوسری پر الزام تراشی اور بہتان سے بھی نہیں چوکتی اور جب اپنی کارکردگی کی باری آتی ہے تو بغلیں جھانکنا شروع کردیا جاتا ہے۔ 

مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت ایک طرف تو ملک کو 2 ارب ڈالر کا ریلیف دینے کیلئے وزیر اعظم کی قیادت میں متحدہ عرب امارات کے دورے پر روانہ ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب پنجاب میں سیاسی ماحول گرم کیا جارہا تھا۔

ایسے میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے کر ایک اچھا اقدام اٹھایا جس سے پنجاب میں جاری سیاسی رسہ کشی بظاہر اختتام کو پہنچتی نظر آتی ہے۔

 

Related Posts