آزادی کی قدر اور قیمت۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آزادی کی قدر و اہمیت کا اندازہ ان قوموں کو ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غلامی کا طوق پہنا ہو، کشمیر اور فلسطین میں ہزاروں مسلمانوں کا خون، جبر و تشدد کی وجہ آزادی ہی ہے جس کے حصول کیلئے ہزاروں جوان اپنی زندگیاں نچھاور کرچکے ہیں اور ان قوموں کو ادراک ہے کہ شہداء کی قربانیاں کیا ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک معجزے کے طور پر عمل میں آیا لیکن قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہمیں استحکام پاکستان کا مسئلہ درپیش ہے جس کیلئے افواج پاکستان اپنی کاوشوں اور کوششوں کو ہمیشہ سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت کے ساتھ جنگیں ہوں یا اندرونی چیلنجز، دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز ہوں یا عوامی خدمات، افواج پاکستان ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں اور افواج پاکستان کی قربانیوں وجہ سے ہی قوم آزادی کی نعمت سے آج بھی لطف اندوز ہورہی ہے وگرنہ دشمن قوتیں ہم سے آزادی چھین کر نجانے کب کا ہمیں محکوم بناچکی ہوتیں۔

یہ تحریر لکھتے ہوئے دل غمگین ہے کیونکہ پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ جائینگے کہ شہداء کی قربانیوں کو فراموش کرکے ان کی یادگاروں کومسمار کیا اور جلادیا جائیگا، ایسا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ قابل افسوس بات تو ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی ہمارے شہداء کی یادگاروں کی توہین پر شکوہ کناں ہے ۔

کیپٹن کرنل شیر خان اپنے نام کی طرح ایک الگ ہی دنیا کا باسی لگتا تھا، جرأت اور بہادری، شجاعت اور وفاداری اس کے خون میں شامل تھی اور کارگل کے محاذ پر جس طرح شیر خان نے اکیلے جوانمردی سے بھارتی فوج کا مقابلہ کیا وہ تاریخ میں امر ہوچکا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عسکری املاک اور یادگاروں کو اس طرح روندا گیا ہو اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج بھارت کے عسکری حلقوں میں بھی افسوس کیا جارہا ہے جبکہ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ بھارتی فوج نے بھی ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔

بھارت کی طرف سے لڑائی کی کمان سنبھالنے والے بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ کہتے ہیں کہ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا، میں نے کبھی کسی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا، کیپٹن شیر خان بہت بہادری سے لڑےاور جام شہادت نوش کرگئے۔

جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کی گئی تو ان کی جیب میں بریگیڈیئر باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا:12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔ افواج پاکستان نے اس بہادر سپوت کو وطن کی مٹی پر قربان ہونے کے عوض سب سے بڑے عسکری اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران جہاں جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہاؤس اور دیگر عسکری املاک کو نقصان پہنچایا گیا وہیں کیپٹن شیر خان کا یادگاری مجسمہ بھی توڑ دیا گیا جس پر آج بھارت میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اب اگر ہم واقعات کے سیاسی و قانونی پہلوؤں کو دیکھیں تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ عمران خان پاکستان کی 3 بڑی پارٹیوں میں سےایک پارٹی کے مقبول لیڈر ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں عوام کو اپنی آواز اٹھانے اور احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن پاکستان میں احتجاج کے نام پر چند روز قبل جو ہوا وہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔

پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب شرپسندوں نے عسکری اداروں کو نشانہ بنایا ہےاور اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکا، برطانیہ، بھارت سمیت ہر ملک میں احتجاج ہوتا ہے اور کئی بار تو معاملات انتہائی تشویشناک حد تک بگڑ جاتے ہیں لیکن قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔

حالات جیسے بھی ہوں کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کو سرکاری اور عسکری املاک پر چڑھائی کرنے یا جلاؤ گھیراؤ کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی اور جہاں تک قانونی پہلو کی بات ہے تو قانون حرکت میں آچکا ہے اور ان واقعات میں ملوث شرپسندوں کے خلاف سول اور فوجی قوانین کے تحت کارروائی شروع ہوچکی ہے اور ممکن ہے کہ بہت جلد ان واقعات میں ملوث ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے اور نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کوئی دوبارہ ایسا کرنے کی جرأت  کبھی نہ کرسکے۔

Related Posts