موروثی سیاست کا زہر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں اقرباء پروری، رشوت ستانی، سفارش، تعلیم اور تعلیم یافتہ مزاج کی حوصلہ شکنی کے رجحانات زور پکڑتے جارہے ہیں اور کیوں نہ ہو؟ ہم آج کے جدید ترین دور میں بھی موروثی سیاست کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

باپ صدر تھا تو بیٹے کو وزیر اعظم بنانے کی تیاریاں جاری ہیں، والدِ بزرگوار ملک کے وزیرِ خارجہ بنے تو بیٹے کو بھی رکنِ اسمبلی کی نشست دلوانا نہ بھولے اور اسی طرح یہ سلسلہ بیٹوں، بیٹیوں اور بھائی بہنوں سے آگے نکل کر بہو اور سسرالی رشتہ داروں تک بھی دراز ہوتا چلا گیا۔

حیرت انگیز طور پر پاکستان کا کوئی بھی صوبہ یا خطہ موروثی سیاست کے پنجۂ ظلم و استبداد سے محفوظ نہیں۔ مثلاً سندھ میں بھٹو زرداری خاندان، پنجاب کے شریف برادران، ملتان کے مخدوم اور قریشی کے علاوہ گیلانی خاندان اسی طرح کے پی کے میں ولی خاندان حکمران بن بیٹھا ہے۔

خیبر پختونخوا میں فضل الرحمان خاندان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت میں اپنی جگہ بنانے کیلئے بدنام رہا۔ بلوچستان کے بگٹی، مینگل اور دیگر قبائل کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی موروثی سیاست کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔

یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر باپ وزیر اعظم تھا تو بیٹے کو وزیرِ خارجہ بنانے میں آخر کیا برائی ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ بنتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ہی عوام کی حکومت ہے۔ اگر باپ، بیٹے اور چچا پھوپھیاں ہی سیاست کے میدان پر چھائے رہیں گے تو عوام کی حکمرانی کا خواب کس طرح شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے؟

اگر پاکستان کو یہی مغلیہ طرز کا طرزِ حکومت ہی اپنانا تھا تو الیکشن کمیشن قائم کرکے آزاد عدلیہ اور آزاد صحافت کے جھوٹے نعرے کیوں لگائے گئے؟ پولنگ کا خرچ بھی بچ جاتا اور عوام کو ووٹنگ کیلئے لائنوں میں لگنے کی زحمت بھی نہ اٹھانی پڑتی۔ صدرِ مملکت کی بیٹی خود ہی صدارت کا حلف اٹھا لیا کرتی۔ وزیر اعظم کو بھی اپنا بیٹا رکنِ قومی اسمبلی بنانے کیلئے پاپڑ نہ بیلنے پڑتے۔

دراصل مندرجہ بالا نکات موروثی سیاست کے زہر کیلئے بہت چھوٹے اور معروضی نوعیت کے ہیں۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا عوام کو حقیقی انصاف میسر آیا؟ کیا بنیادی انسانی حقوق پورے کرنے کیلئے حکومت نے کبھی سنجیدگی دکھائی؟ کیا عوام تعلیم، طب اور روزگار سمیت کسی بھی شعبۂ زندگی میں خود کو مستقبل قریب کیا، مستقبل بعید میں بھی کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں؟

افسوسناک طور پر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں آتا ہے کیونکہ نسل در نسل پاکستان پر حکمرانی کرنے والے خاندان یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر غریبوں کو آگے آنے دیا گیا تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے اور وہ بدلنا ہمارے ذاتی مفادات کے خلاف ہے۔ بقول شاعر:

کہتے رہے کہ ظلم ہوا اور برا ہوا

انصاف  کی کسی نے مگر بات تک نہ کی

اکیسویں صدی میں ہے یہ پتھروں کا عہد

یا پتھروں کے عہد میں اکیسویں صدی؟