چیئرمین بورڈز کی تقرری کا معاملہ ایک بار پھر عدالت پہنچ گیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چیئرمین بورڈز کی تقرری کا معاملہ ایک بار پھر عدالت پہنچ گیا
چیئرمین بورڈز کی تقرری کا معاملہ ایک بار پھر عدالت پہنچ گیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : سندھ ہائی کورٹ کے سرکٹ کورٹ حیدر آباد نے حکومت سندھ کے محمکہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کو سندھ بھر کے 5 تعلیمی و امتحانی بورڈ میں چیئرمینوں کا تقرر کرنے کیلئے متنازعہ طریقہ کار اپنانے پر عدالت طلب کر لیا ہے ۔ عدالت کی جانب سے چیف سیکرٹری سندھ سمیت سیکرٹری یونیورسٹی اینڈ بورڈ اور تمام اراکین سرچ کمیٹی کو اگلی سماعت 3 اگست کو پیش ہونے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے ۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے تحت سندھ کے 5 امتحانی بورڈز  کے چیئرمینوں کی اسامیوں کے دو امیدواروں نے عدالت سے رجوع کر کے بھرتیوں کے عمل اور سرچ کمیٹی پر اعتراضات اٹھا کر معاملہ روکوانے کی استدعا کر دی ہے ۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سکھر کے سیکرٹری رفیق احمد پل اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میر پور خاص کے ڈپٹی سیکرٹری غلام احمد نے سندھ ہائی کورٹ کے سرکٹ کورٹ حیدر آباد سے آئینی پٹیشن نمبر D-1192/2021  کے ذریعے استدعا کی ہے کہ حکومت سندھ متنازعہ سرچ کمیٹی کے ذریعے من پسند افسران کو وائس چانسلر ‛ چیئرمین اور کنٹرولر سمیت سیکرٹریز حیسے کلیدی عہدوں پر تعینات کر رہی ہے۔ جس سے اداروں میں تعلیمی و امتحانی نظام پر تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔ لہذا فی الفور آئین کی سیکشن 151 کے تحت اس عمل کو روکا جائے۔

درخواست گزاروں کے وکیل آیت اللہ خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ چیف سیکری سندھ سید ممتاز علی شاہ ‛ سیکرٹری جامعات اینڈ بورڈ منور عباس رضوی اور سرچ کمیٹی کے اراکین نے سندھ بھر کے 5 امتحانی بورڈوں کی اعلی ترین اسامیوں پر چیئرمین تقرر کرنے کیلئے تیاری کر لی ہے ۔ جس میں حسب سابق من پسند افراد کو کھپایا جائے گا۔ جس سے نہ صرف تعلیمی نظام تباہ ہو گا بلکہ اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی۔ اس وجہ سے اس عمل کو روکا جائے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سرچ کمیٹی کی اپنی کوئی آئینی حیثیت ہی نہیں ہے وہ تقریر کیسے کر سکتی ہے؟۔ حسب سابق کے بجائے پبلک سیکٹر سے افسران لینے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر سے بھی افراد کو بھرتی کرنے کا مقصد تعلیم کی خدمت قطعاً نہیں ہو سکتی کیونکہ ماضی میں بینک منیجر کو بھی ایسی اسامی پر بھرتی کیا جا چکا ہے اور آخری نمبر عدالت کو بتایا گیا ہے کہ حکومت سندھ 1961 سے لیکر اب تک بورڈ کے چیئرمین کے تقرر کیلئے کوئی قانون سازی ہی نہیں کر سکی ہے۔

اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ سرکٹ کورٹ حیدر آباد کی جانب سے سرچ کمیٹی کے کنوینئر ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت ‛ ڈاکٹر اے کیو مغل ‛ ڈاکٹر نیلوفر شیخ ‛ ڈاکٹر محمد قیصر ‛ امیتاز کاظمی کو 3 اگست کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا ہے ۔

واضح رہے کہ سندھ کے پانچ تعلیمی بورڈز میں چیئرمین کے عہدے کیلئے 160 سے زائد درخواستیں موصول ہوئی تھیں ۔ جس کے بعد 13 جولائی کو سرچ کمیٹی کا اجلاس منعقد کر کے امیدواروں کی جانچ کا عمل شروع کیا گیا ۔ 160 میں سرچ کمیٹی منتخب امیدواروں کے انٹرویوز کرنے کے بعد فی بورڈ تین اور مجموعی  15 امیدواروں کے نام متعلقہ اتھارٹی کو بھیجنے کی مجاز تھی تاہم اس دوران سارا عمل روک دیا گیا ہے ۔

ان امیدواروں میں ہائر سیکنڈری و سکینڈری بورڈ حیدرآباد ‛ میر پورخاص ‛  نواب شاہ ‛ سکھر کے علاوہ  سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی میں چیئرمین کی تعیناتی کی جانی ہے ۔ 160 امیدواروں میں معروف ماہرین تعلیم میں پروفیسر ڈاکٹر علی رضا شاہ، ڈاکٹر پیار علی جتوئی، پروفیسر زاہد احمد، ارشد سلیم، ڈاکٹر منسوب حسین صدیقی، ڈاکٹر شفیق احمد رند، محمد صفر کچار، ڈاکٹر حمزہ خان، سید عرشیہ خاتون، طاہرہ ملک، پروفیسر کاشف احمد، رضیہ بیگم، انور علیم  ، ضیاالحسن شیخ، قاضی عارف علی، قاضی ظہیر الحسنین، عبدالقادر شاہ ، سید مہدی حسن زیدی، رفیق احمد پھل ، اسکوڈران لیڈر (ر) اللہ نواز ، الطاف حسین عباسی، ڈاکٹر علی اکبر بھٹو، ڈاکٹر مسرور احمد شیخ ‛ اللہ بخش سومرو، قاضی ارشد حسین صدیقی، محمد شعیب، محمد عمران خان چشتی، مظفر علی بھٹو ، شفقت حسین خادم، حفیظ اللہ ‛ عبدالرحمان ، ڈاکٹر سید علمدار رضا، محمد انیس الدین، امیر علی لاشاری شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حاکم علی زرداری، عامر بشیر، حسین عباس، مشتاق احمد شاہانی، رفیعہ بانو، ڈاکٹر غلام قاسم بگھیو، مظہر علی صدیقی، غلام مصطفی چارن، اقبال احمد جمانی، ڈاکٹر تنویر حسین، ڈاکٹر مسرور احمد زئی، پروفیسر حافظ باری اندھڑ، غلام حسین سوہو، ڈاکٹر ریاض احمد صدیقی، سید معظم حید، محمد کاشف صدیقی، فدا حسین چانگ، ضمیر کھوسو، فرناز ریاض، بسمہ شاہ اور دیگر شامل ہیں ۔ تاہم ان میں انٹر بورڈ کراچی کے سابق کنٹرولر عمران خان چستی ، کنٹرولر حیدرآباد بورڈ ڈاکٹر مسرور احمد زئی ، سیکرٹری سکھر بورڈ رفیق احمد ، سیکرٹری میرپور خاص بورڈ انیس صدیقی سمیت میر پور خاص بورڈ انجنیئر انور علیم  بورڈ کا بہترین تحربہ رکھتے ہیں۔ انہی کے درمیان مقابلے کی فضا پائی جا رہی تھی ۔ جب کہ موجود کنٹرولر اور سیکرٹری میں تجربے کے لحاذ سے مسرور احمد زئی،  انیس صدیقی،  انور علیم، رفیق احمد ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے مدعیوں کے وکیل آیت اللہ خواجہ نے نمائدہ ایم ایم نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اس متنازعہ بھرتی کے عمل کو روکا جائے کیونکہ تعلیمی و امتحانی بورڈ میں افسر کی ریکوائرمنٹ میں تعلیمی تجربے کو پس پشت ڈال کر انتظامی تجربہ مانگا گیا ہے اور دوسرے نمبر پر خود بورڈ کے افسران یا ماہرین تعلیم و منتظمین کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر سے کسی منیجنگ کے تجربہ کے حامل شخص کو بورڈ میں کیوں تعینات کیا جائے ۔ جس پر عدالت نے 3 اگست کو فریقین کو طلب کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافے کے پیش نظر کراچی کے مختلف علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ

Related Posts