امیر اور غریب کا قانون

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مشہور مقولہ ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے جو امیر اور غریب کا فرق نہیں کرتا بلکہ شواہد اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ سناتا ہے۔ مانا کہ پاکستان میں امیر اور غریب کیلئے قوانین الگ الگ نہیں ہیں مگر یہاں قانون کی آنکھیں اور کان دونوں ہیں۔

مقولہ یہ بھی ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور اس میں ایک اضافہ یہ کر لیجئے کہ یہ لمبے ہاتھ جھٹ سے مجرموں کو جا دبوچتے ہیں لیکن نئے دور میں ایک نیا اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ مجرموں کو دبوچنے کے بعد سزا دلوانے کیلئے عدالت میں پیشی کی بجائے مک مکا کر لیا جاتا ہے۔

قدیم دور میں بادشاہ جو فرما دیتے، وہی قانون ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال کے طور پر ایک کہانی ہمارے سامنے ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک غریب آدمی کسی ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتا تھا جس کی دیواریں بوسیدہ تھیں۔ ایک روز دیواریں گر گئیں تو غریب آدمی نے سر چھپانے کیلئے قرض لے کر دیواروں کی دوبارہ تعمیر شروع کردی۔

دیواریں تعمیر ہوجانے کے بعد اس شخص نے تھک ہار کر سونے کا ارادہ کیا اور ٹاٹ پھیلا کر سو بھی گیا۔ رات کے وقت ایک چور نے چھت پر چڑھنے کی کوشش کی تو دیواروں پر چھت کے نام پر جو ٹاٹ رکھا تھا، وہ پھٹ گیا اور چور غریب آدمی پر گر گیا۔

چور نے بادشاہ کو شکایت کی کہ غریب آدمی نے کمزور چھت بنائی تھی جس سے میں گر گیا، ہوسکتا تھا کہ میری ٹانگ ٹوٹ جاتی۔ بادشاہ نے کہا کہ انصاف ہوگا اور ضرور ہوگا۔ غریب آدمی  کو طلب کیا گیا اور بادشاہ سلامت نے پوچھا کہ جو کچھ چور کہہ رہا ہے، کیا وہ سچ ہے؟

بادشاہ سلامت سے جان کی امان پا کر غریب آدمی نے کہا کہ چور میرے اوپر گرا تھا، ٹانگیں ٹوٹی تو نہیں، پھر شکایت کس بات کی ہے؟ بادشاہ سلامت کو غصہ آگیا اور سزائے موت سنا ڈالی۔ غریب آدمی نے کہا کہ پھانسی تو چور کو ہونی چاہئے مگر بادشاہ سلامت نہیں مانے۔

غریب آدمی کو ترکیب سوجھی کہ الزام کسی اور پر ڈال دینا چاہئے۔ اس نے کہا کہ غلطی اس مزدور کی ہے جس نے چھت کی جگہ ٹاٹ بچھا دیا، اگر کمزور ٹاٹ نہ بچھایا جاتا تو مسئلہ نہ ہوتا۔ بادشاہ نے مزدور کو پکڑنے کا فرمان جاری کردیا۔

مزدور کو جب گرفتار کرکے پھانسی دی جانے لگی تو اس نے کہا کہ غلطی ٹاٹ بنانے والے کی ہے، سارا قصور تو اس کا ہے۔ٹاٹ بنانے والے نے بھی یہی کیا اور کہا کہ جب میں ٹاٹ بن رہا تھا تو ایک کبوتر باز کی وجہ سے میرا دھیان کبوتروں پر چلا گیا اور ٹاٹ کمزور ہو گئے۔ آخر میں بادشاہ سلامت کے ہرکاروں نے کبوتر باز کو پھانسی پر چڑھا دیا۔  چور کو سزا دینے کی بجائے کبوتر باز کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا۔

غور کیجئے تو ہمارے پیارے ملک میں بھی صورتحال کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ تھانیدار، جج، وکیل اور سیاستدان سب کے سب عوام کو انصاف فراہم نہ کرنے پر متفق ہیں کیونکہ گزشتہ 75سال سے عوام کو انصاف میسر نہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کیونکہ جب کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے تھے اور جب طاقتور جرم کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا تھا۔

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں بھی عدل و انصاف کے نظام کو حقیقی معنوں میں رائج کیا جائے تاکہ کمزور افراد کو بھی طاقتور کے شانہ بشانہ انصاف مل سکے۔