دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی ریاستی ستونوں میں ایسی گھمسان کی جنگ دیکھنے کو ملتی ہو، جیسا کہ پاکستان کا حال ہے جہاں سپریم کورٹ، آرمی چیف اور وزیر اعظم سمیت ملک کا ہر اعلیٰ ترین عہدہ عوامی تنقید کی زد پر ہے۔
تہذیب کے اعلیٰ اصولوں پر عمل پیرا ترقی یافتہ ممالک میں سپریم کورٹ کا کام عدالتی فیصلے کرنا ہوتا ہے، وہ پارلیمنٹ میں دخل اندازی نہیں کیا کرتی، نہ ہی ملک کا وزیر اعظم سپریم کورٹ کے خلاف بیانات جاری کیا کرتا ہے۔
اسی طرح آرمی چیف کو ملکی معیشت کے متعلق کوئی تشویش لاحق نہیں ہوتی، نہ ہی دوست ممالک سے تعلقات بڑھانے کا فریضہ وزیرِ خارجہ کے ہاتھ سے لے کر آرمی چیف کے سپرد کیا جاتا ہے۔ یہ تمام تر سنہری روایات ہمارے ملک میں رائج ہیں۔
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں گزشتہ روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی اور قائمہ کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ منگل تک فراہم کرنے کا حکم دیا۔
دلچسپ طور پر وفاقی وزراء اور اراکینِ پارلیمنٹ پہلے ہی پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ کو فراہم کرنے سے انکار کرچکے ہیں جس سے میڈیا نمائندگان اور عوام کے ذہنوں میں بھی یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ پارلیمان سپریم کورٹ سے کیا چھپانا چاہتا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں مذکورہ درخواستوں کی سماعت ججز کے 8 رکنی بینچ نے کی۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری بھی عدالتِ عظمیٰ میں اپنا مؤقف بیان کرنے کیلئے پیش ہوئے تھے۔
حکومت کی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے جس پر سپریم کورٹ نے منفی ردِ عمل دیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کی جج جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت میں پہلی بار آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کسی بھی مقدمے کی سماعت کرسکتا ہے۔ کیا حکومت فل کورٹ بینچ کا فائدہ اٹھانے کی خواہاں ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ عدالت کی اندرونی بحث باہر لائی جائے؟ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے۔ یقین کیسے ہوگا کہ فل کورٹ بینچ کون سے کیس کی سماعت کرے گا؟ کیا عدلیہ کی آزادی کے ہر مقدمے کی سماعت فل کورٹ نے کی تھی؟
یہاں یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل بذاتِ خود چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے سوموٹو اختیارات کو کم کرنے کی پارلیمانی کوشش ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت میں اپنی طرز کا ایک انوکھا بل قرار دیا جاسکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کے ستون کہلانے والی مقننہ اور عدلیہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی بجائے ملکی معیشت کی بہتری سمیت دیگر اہم عوامل اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں جو ان کے حقیقی فرائض ہیں۔