پب جی گیم کے معاشی فوائد، سماجی نقصانات اور پابندی کے فیصلے کے دور رس اثرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پب جی گیم کے معاشی فوائد، سماجی نقصانات اور پابندی کے فیصلے کے دور رس اثرات
پب جی گیم کے معاشی فوائد، سماجی نقصانات اور پابندی کے فیصلے کے دور رس اثرات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پب جی صرف ایک گیم نہیں بلکہ موجودہ دور کے بچوں کیلئے ایک سنجیدہ نوعیت کی تفریح اور نوجوانوں کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پب جی کے باعث خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پب جی گیم میں ایسا کیا ہے کہ اسے اتنا سنجیدہ لیا جائے، کیونکہ گیم تو انسان فارغ اوقات میں تفریحِ طبع کیلئے کھیلتا ہے اور  پب جی کی اجازت دینے والے ممالک کو کیا معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں؟

دوسری جانب یہ سوالات بھی اپنی جگہ اہم ہیں کہ تشدد سے بھرپور گیم کے سماجی اور جانی و مالی نقصانات کیا ہیں جو عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں اور پابندی لگانے کے فیصلے کے کیا دور رس اثرات ہوسکتے ہیں؟

آئیے پب جی گیم کے حوالے سے انسانی ذہن میں آنے والے اہم سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ علم ہوسکے کہ موجودہ دور میں گیمز کے کیا معاشی و سماجی فوائد یا نقصانات ہوسکتے ہیں۔

پب جی گیم کیا ہے؟

تکنیکی اعتبار سے پب جی ایف پی ایس یعنی فرسٹ پرسن شوٹر نہیں بلکہ ٹی پی ایس یعنی تھرڈ پرسن شوٹر گیم ہے۔ فرسٹ پرسن شوٹر گیمز میں کھیلنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بندوق لے کر دشمنوں پر حملہ کر رہا ہے یا دشمن اس پر فائرنگ کر رہے ہیں جبکہ تھرڈ پرسن میں ایسا نہیں ہوتا۔

تھرڈ پرسن شوٹر گیم میں آپ کو مارنے والا ایک الگ شخصیت کے طور پر نظر آتا ہے جو کوئی لڑکا یا لڑکی ہوسکتی ہے جو ایک انسان کے طور پر چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر آپ حملہ کرتے ہیں تو آپ کو یہ نہیں لگتا کہ حملہ آپ نے کیا ہے کیونکہ فرسٹ پرسن کی طرح یہاں گیم کا مرکزی کردار نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔

اس لحاظ سے پب جی کو تھرڈ پرسن شوٹر کہا جاتا ہے جس میں بچے یا نوجوان لڑکے لڑکیاں سامنے موجود دشمن پر مسلسل گولیاں، خنجر، اسلحہ بارود، دستی بم اور توپ خانے وغیرہ سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی شخص پر گولیاں چلاتے ہیں تو اس کی چیخ پکار اور خون خرابا، سب کچھ حقیقی دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان میں گیم پر پابندی کیوں؟

وطنِ عزیز کے مؤقر ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے یکم جولائی کو پب جی پر عارضی پابندی عائد کی اور اپنے اعلامیے میں کہا کہ مختلف لوگوں نے ہمیں درخواستیں دیں، اس لیے گیم کو معطل کر رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں پب جی کے خلاف 10 جولائی کو سماعت بھی ہوگی جس میں گیم پر پابندی برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے اہم فیصلہ متوقع ہے۔ پی ٹی اے کو عوام نے پب جی کے خلاف ایک نہیں بلکہ سیکڑوں شکایات کیں۔

عوامی شکایات کیا ہیں؟

عوام نے پی ٹی اے سے پب جی کے خلاف شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ پب جی ہمارے بچوں اور نوجوان نسل کو نفسیاتی طور پر مفلوج کررہا ہے۔ گیم وقت ضائع کرنے کا باعث اور ذہنی اور جسمانی صحت پر سنگین منفی اثرات رکھتا ہے۔

شہریوں نے پی ٹی اے سے اپیل کی کہ نوجوان نسل پب جی کے باعث ذہنی مریض بن چکی ہے اور خودکشی کرنے کیلئے بھی تیار ہوجاتی ہے اگر انہیں یہ گیم نہ کھیلنے دی جائے۔ اس لیے پاکستان میں گیم پر پابندی ہونی چاہئے۔ 

وقار ذکاء کا پب جی سے تعلق؟ 

جب پب جی پر عارضی پابندی لگائی گئی تو نفسیاتی خوف میں مبتلا کردینے والے پروگرامز کے اینکر وقار ذکاء نے پابندی کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ اس پر پابندی نہیں لگنی چاہئے۔

بظاہر وقار ذکاء کا تعلق پب جی سے کچھ نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نفسیاتی خوف جو پب جی کا ایک اہم حصہ ہے، وقار ذکاء کے پروگرامز میں بھی نظر آتا ہے، اس لیے کچھ نہ کچھ تعلق ثابت کیا جاسکتا ہے، تاہم ضروری نہیں کہ یہ حقیقت ہو۔

ایک پاکستانی شہری کے طور پر وقار ذکاء نے یہ محسوس کیا کہ آن لائن پیسے کمانے کیلئے پب جی ایک اہم ذریعہ ہے جس پر پابندی سے گیمنگ انڈسٹری کے جن پاکستان سے تعاون ختم کردیں گے جس سے ملک کا مالی نقصان ہوگا۔

جانی اور مالی نقصان میں سے ایک کا انتخاب

یہاں لاہور ہائی کورٹ جو 10 جولائی کو پب جی گیم پر پابندی برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے اہم فیصلہ کرنے والی ہے، اسے جانی اور مالی نقصان میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا۔

پب جی گیم پر اگر پابندی برقرار رکھی گئی تو وقار ذکاء کے مطابق یہ مالی نقصان ہے جبکہ اگر پابندی معطل کردی گئی تو عوام کے مطابق جانی نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ لاہور میں 3 نوجوان پہلے ہی پب جی کے باعث خودکشی کرچکے ہیں۔

تیسرا نوجوان جس نے پب جی گیم کے باعث خودکشی کی، اس کا نام شہریار تھا جس کی موت پر آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے کہا کہ آن لائن گیم کے باعث ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہورہا ہے۔ 

پابندی معطل ہونی چاہئے یا نہیں؟

جیب میں ہزاروں روپے ہوں اور وہ کوئی چوری کر لے،  سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی تجوری ڈاکو لے اڑیں یا زمین اور جائیدادیں کوئی لٹیرا خدانخواستہ ہتھیا لے، انسانی جان کا خوف ان سب سے زیادہ ہے۔

ذہنی اعتبار سے نوجوان نسل کی تباہی اور ملکی مستقبل کا موت کے منہ میں چلے جانا پاکستان کیلئے زیادہ اہم مسائل ہیں جو پب جی جیسی گیم سے حاصل ہونے والی آمدن کیلئے داؤپر نہیں لگائے جاسکتے۔ پابندی برقرار رہنی چاہئے۔ 

فیصلے کے دور رس اثرات

اگر لاہور ہائی کورٹ پب جی گیم کے حق میں یا خلاف فیصلہ کرتی ہے تو دونوں صورتوں میں ملک پر اِس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو نوجوان نسل اور پب جی کھیلنے والے بچوں کیلئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

عدالت نے اگر یہ فیصلہ کیا کہ پب جی گیم پر پابندی معطل کردی جائے تو نوجوانوں کی خودکشی کا سلسلہ خاکم بدہن جاری رہ سکتا ہے اور ملک اپنے بہترین سرمائے سے محروم ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں کی ہے۔

دوسری جانب اگر پابندی برقرار رکھی گئی اور پب جی  گیم مستقل کالعدم قرار دے دی گئی تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ ہماری نوجوان نسل ایک گمراہ کن، پر تشدد اور نفسیاتی مسائل پیدا کرنے والی گیم سے دور ہوجائے گی۔ 

Related Posts