پاکستان میں سیاسی لوٹے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب بھی ملکی سیاست کے بارے میں کوئی بات کی جاتی ہے تو لوٹوں کا ذکر ضرور آجاتا ہے۔ جی ہاں، کہا جاتا تھاکہ لوٹے کسی بھی حکومت کی تشکیل میں کنگ میکر کا سا کردار ادا کرتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال بدل رہی ہے۔

گزشتہ 20 سالوں کے دوران تو لوٹوں کا کردار بے حد اہم رہا۔ دور کیوں جائیے؟ پیپلز پارتی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے بالترتیب 2008، 2013 اور 2018 میں اپنی حکومتیں لوٹوں کے تعاون سے بنائیں۔

اکثر ایسے اراکینِ اسمبلی کو لوٹا کہہ کر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے جبکہ سنجیدہ معاملہ یہ ہے کہ اس سے جمہوریت کا عمل سبوتاژ ہوتا ہے اور سیاسی پارٹیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔

بلا شبہ اپنی پسند کی پارٹی چننا کسی بھی سیاستدان کا جمہوری حق ہوا کرتا ہے تاہم جہاں تک سیاسی نظریات کا تعلق ہے تو ایسے افراد میں مستقل مزاجی کی کمی سنگین حد تک قابلِ اعتراض ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ ایک رکنِ اسمبلی لاکھوں شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

بہت سے اراکینِ اسمبلی وزراء بننے کے خواہاں ہوتے ہیں اور بہت سے پارٹیاں بدل بدل کر لوٹا کہلانے لگتے ہیں۔

سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی حکومت کرتے وقت ن لیگ سے پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور اب پی ٹی آئی میں ہیں۔ فواد چوہدری جنرل مشرف کے میڈیا مین کہلاتے تھے، پھر پیپلز پارٹی میں آئے اور اب تحریکِ انصاف کی نمائندگی کرتے ہیں۔

جاوید ہاشمی جیسی قدآور شخصیت نے بھی برسوں کی حمایت کے بعد نواز شریف کو چھوڑ دیا اور تحریکِ انصاف کے جھنڈے تلے آگئے کیونکہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی امیدیں خاصی طاقتور ہوچکی تھیں۔

عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے اور حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب کرنے میں بھی لوٹوں کا کردار مسترد نہیں کیاجاسکتا جو کبھی عمران خان کے ساتھ تھے اور پھر پی ٹی آئی کے خلاف ہو گئے۔

اس وقت سے لے کر اب تک چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے الیکٹیبلز کو لوٹا قرار دیتے ہوئے ان کی بے بنیاد سیاست بے نقاب کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھایا۔

تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ سے اپیل کی اور پھر الیکشن کمیشن میں بھی کیس چلا جہاں پی ٹی آئی کے 20ناراض اراکین کو ڈی سیٹ کردیا گیا اور خالی نشستوں پر دوبارہ پولنگ 17 جولائی کو کی جائے گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پنجاب میں ضمنی انتخاب کی مہم میں پارٹی کے حامیوں اور کارکنان سے کہا کہ وہ ذلت آمیز شکست کے ساتھ لوتوں کو سبق سکھائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتیں بنانے اور ہٹانے میں لوٹوں کا کردار مثبت اور منفی دونوں سمتوں میں متحرک دکھائی دیتا ہے تاہم عمران خان نے جس طرح ان منفی عناصر کے کھیل کو بے نقاب کیا ہے، ان کو اس بات کا کریڈٹ نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔