مولانا طارق جمیل، ایم ٹی جے فیشن برانڈ اور عالمِ دین کی ذمہ داریاں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مولانا طارق جمیل، ایم ٹی جے فیشن برانڈ اور عالمِ دین کی ذمہ داریاں
مولانا طارق جمیل، ایم ٹی جے فیشن برانڈ اور عالمِ دین کی ذمہ داریاں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

فرقہ وارانہ گفتگو اور تعصب سے دور رہنے والے پاکستان کے معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے ایم ٹی جے فیشن برانڈ شروع کرکے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جو آج کل سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

بعض سوشل میڈیا صارفین کہتے ہیں کہ ایم ٹی جے برانڈ کے تحت فروخت کی جانے والی فیشن مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ایک عالمِ دین ہونے کی حیثیت سے مولانا طارق جمیل کو فیشن برانڈ زیب نہیں دیتی۔ حقیقت کیا ہے؟ آئیے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مولانا طارق جمیل کی شخصیت اور کردار

بنیادی طور پر مولانا طارق جمیل صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال میں واقع شہر تلمبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تبلیغ مولانا کا دینی شوق اور علمِ دین ان کا اہم سرمایہ ہے جس کا ثبوت ان کی بے شمار تقریروں اور بیانات سے ملتاہے۔

میاں چنوں میں پیدا ہونے والے مولانا طارق جمیل نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا تاہم یہ تعلیم مکمل کرنے کی بجائے جامعہ عربیہ رائے ونڈ چلے گئے۔

دینی علم حاصل کرنے کے بعد مولانا دینِ اسلام کی تبلیغ کیلئے ملک ملک گھومے۔ کم و بیش 6 براعظموں کا سفر کیا اور بہت سے گلوکاروں، اداکاروں اور کھلاڑیوں سمیت بے شمار مشہور شخصیات کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں کامیاب رہے۔

شہرت اور علم و فضل 

پاکستان میں شاید ہی کوئی اور عالمِ دین ہو جو مولانا طارق جمیل کا شہرت اور علم و فضل میں مقابلہ کرسکے۔ حال ہی میں مولانا طارق جمیل کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ 

پاکستانی گلوکار و فنکار ہوں یا بھارتی کھلاڑی اور فلمی اداکار، مولانا طارق جمیل مذہب اور رنگ ونسل کی پروا کیے بغیر ہر ایک کے ساتھ بیٹھ کر کھلے ذہن سے گفتگو کرتے ہیں اور علمائے دین کے متعلق عوام کی رائے بدل دیتے ہیں۔

ایم ٹی جے برانڈ

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ایم ٹی جے سے مراد مولانا طارق جمیل کی ذاتی فیشن برانڈ ہے جس کی لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق یہ وہ فیشن برانڈ ہے جو معیار اور دیانتداری کے ساتھ کام کرے گی۔

مجموعی طور پر 50 سے 100 افراد ایم ٹی جے فیشن برانڈ کا حصہ ہیں تاحال ایم ٹی جے آن لائن نامی ویب سائٹ باضابطہ طور پر متعارف نہیں کرائی جاسکی۔ ابتدائی طور پر برانڈ کے تحت شلوار، قمیض اور کرتے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ 

ایم ٹی جے برانڈ کا شاندار افتتاح کیا گیا۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ کاروبار کی آمدنی مدرسوں کے طلباء کی تعلیم و تربیت پر خرچ کی جائے گی۔ توقع یہ کی جارہی ہے کہ جلد ہی ایم ٹی جے برانڈ کی شاخیں ملک کے تمام بڑے شہروں میں قائم کی جائیں گی۔

فیشن اور اسلام 

غور کیا جائے تو مولانا طارق جمیل نے زندگی بھر جس فیشن، دوپٹے نہ پہننے، نمودونمائش اور غیر ضروری تصرفات سے اجتناب کی ہدایت کی، فیشن برانڈ کا آغاز اس کا مخالف نظر آتا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر مولانا طارق جمیل میڈیکل کاکام شروع کرتے، پھلوں اور سبزیوں یا کھانے پینے سے متعلق کوئی دیگر کاروبار کرتے یا پھر درس و تدریس سے ہی روزگار کا سلسلہ شروع کرتے تو کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مولانا طارق جمیل نے جو کپڑوں کی خریدوفروخت کا کاروبار شروع کیا ہے، وہ فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھتا ہے جو کوئی برانڈ نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک الگ طریقہ ہے جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔

معروف تجزیہ کار یاسر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ 21ویں صدی کی فیشن انڈسٹری کا فلسفہ شخصی آزادی، صارفیت نمائی اور مخصوص باڈی امیج کی نمائندگی کرتا ہے جس میں تقویٰ، سادگی اور قناعت کی گنجائش نہیں ہے۔ انسان کی اپنی ذات اور پسند ناپسند اہم ہے، نہ کہ معاشرہ اور ملک و قوم اور یہ سب چیزیں مذہب سے متصادم ہیں۔ 

عالمِ دین کی رائے

خود مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے کہ برصغیر میں علماء کے کاروبار یا تجارت کو عیب سمجھنا شروع کردیا گیا ہے۔ پتہ نہیں ایسا کیسے ہوا؟ حالانکہ امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ان سے بڑا کوئی کپڑے کا تاجر دستیاب نہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ مولوی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ وہ خیرات مانگے، نہ ہم نے کسی کاروباری نیت سے کام شروع کیا نہ کسی کے مقابلے پر، ہم اتنا چاہتے ہیں کہ مدارس اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔ 

بنیاد پرستی اور حقیقت پسندی 

شدت پسندی یہ ہے کہ مولانا کا مؤقف سنے بغیر انہیں فیشن ایبل قرار دے دیا جائے یا پھر اندھا دھند انہیں رہبر مان کر ان کی پیروی کی جائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی ویب سائٹ پر سیپیا، ٹیوڈر ٹائمز، فرنچ فلورل وغیرہ جیسی فیشن برانڈز موجود ہیں۔

قیمت کے زیادہ ہونے کا شکوہ بھی ایک حد تک درست ہوسکتا ہے کیونکہ نماز ادا کرنے کیلئے جو ٹوپی مولانا طارق جمیل کی ویب سائٹ پر 1400 روپے میں دستیاب ہے، عام مارکیٹ میں شاید اس سے کہیں کم قیمت پر مل جائے۔

دوسری جانب مولانا کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ وہ مذہبی مدارس کی فی سبیل اللہ مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں مولانا طارق جمیل کے طریقۂ کار پر تو اعتراض کیا جاسکتا ہے، نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ 

Related Posts