شوگر مل مافیا اور چینی کے بحران پر مشتہر کی گئی رپورٹ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شوگر مل مافیا اور چینی کے بحران پر مشتہر کی گئی رپورٹ
شوگر مل مافیا اور چینی کے بحران پر مشتہر کی گئی رپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے وفاقی حکومت کو تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے بنائی گئی فرانزک رپورٹ پیش کی جس میں چینی کا بحران پیدا کرنے میں شوگر مل مافیا کے بڑے بڑے نام سامنے آئے اور ایوانِ اقتدار کے ساتھ ساتھ ایوانِ حزبِ اختلاف بھی لرزنے لگا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایات کے تحت شوگر مل مافیا کو بے نقاب کرنے والی یہ رپورٹ اب منظرِ عام پر آچکی ہے جس میں دیگر بڑے ناموں کے ساتھ  پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کا نام بھی سامنے آگیا۔

رپورٹ گزشتہ روز منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی جس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین ، اومنی گروپ اور خسرو بختیار کے بھائی کو چینی بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔آئیے اس رپورٹ اور شوگر مل مافیا کے حوالے سے مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

ملک میں چینی کی صنعت کی اہمیت اور تاریخ 

چینی کی صنعت پاکستانی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کے بعد یہ ملک کی دوسری بڑی صنعت قرار دی جاتی ہے جبکہ یہ صنعت قیامِ پاکستان کے وقت سے کام کر رہی ہے۔

سن 1947ء میں پاکستان کے پاس صرف 2 شوگر ملیں تھیں جو ملکی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتی تھیں جسے دیکھتے ہوئے پاکستان نے بیرونِ ملک سے چینی درآمد کرنا شروع کردی جس سے ملکی خزانے پر بے جا بوجھ پڑا۔

جلد ہی پاکستان نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ چینی کی پیداوار ملک میں ہی شروع کی جانی چاہئے۔ چینی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حکومت نے سن 1957ء میں ایک کمیشن قائم کیا جسے چینی کی صنعت کو ترقی دینے کیلئے اسکیم تشکیل دینے کا ٹاسک دیا گیا۔

صوبہ سندھ کے علاقے ٹنڈو محمد خان میں سن 1961ء میں پہلی شوگر مل لگائی گئی جس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور ملک بھر کے صنعتکاروں اور سیاستدانوں نے بھی شوگر ملیں لگانا شروع کردیں۔ سن 2002ء تک پاکستان میں لگائی جانے والی شوگر ملوں کی تعداد 76 تھی جو اب تقریباً 90 ہیں۔ 

روزگار مہیا کرنے کے حوالے سے دیکھا جائے تو سن 2002ء تک 75 ہزار افراد شوگر ملوں سے وابستہ تھے جن میں انتظامیہ (مینجمنٹ)، ٹیکنالوجسٹ، انجینئرز، مالیاتی ماہرین اور کلرک وغیرہ شامل ہیں جن کی تعداد آج 1 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔

چینی کا بحران کیسے پیدا ہوا؟

ہوا کچھ یوں کہ  چینی بحران کے باعث عوام کو چینی مہنگی مہیا کی گئی یعنی جو چینی پہلے 50 روپے فی کلو یا اس سے بھی کم نرخ پر دستیاب تھی، اسے 70 روپے سے لے کر 80 روپے اور اس سے بھی زیادہ نرخوں پر فروخت کیا گیا جس سے ملک کو اربوں کا نقصان پہنچا۔

دوسری جانب شوگر ملز مافیا صرف چینی کی خریدوفروخت پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثر رسوخ کا دائرۂ کار اس سے بہت وسیع ہے جس میں گنا اگانے والے کسان اور خود شوگر ملوں کے ملازمین سے لے کر مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے ذخیرہ اندوزوں تک سب شامل ہیں۔ 

ملک کو کتنا نقصان پہنچایا گیا؟

چینی بحران پر تیار کردہ فرانزک رپورٹ کے مطابق ملک کو 5 سال کے دوران 29 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، لیکن ملک کے عوام، گنا پیدا کرنے والے کسانوں اور قومی خزانے کو صرف 5 سال سے تو نقصان نہیں پہنچایا جارہا، اس لیے حقیقی خسارہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

سن 1990 سے لے کر 2000ء تک ملک بھر میں گنے کی پیداوار 11.7 فیصد سے لے کر 24 فیصد بڑھی لیکن حیرت انگیز طور پر اس دوران چینی کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں کی جاسکی۔ یقیناً یہ ذمہ داری بھی شوگر ملز مافیا پر عائد کی جانی چاہئے تاہم یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔

گنا اگانے والے کسان کو نقصان

اگر ہم چینی کے بحران کا سرسری جائزہ لیں تو بس یہی لگتا ہے کہ چینی مہنگی فروخت کی گئی جس سے چینی خریدنے والے عوام یعنی چینی کے صارفین متاثر ہوئے لیکن یہ بحران اتنا چھوٹا نہیں ہے بلکہ اس کی اصل کہانی کھیتوں سے شروع ہوتی ہے۔

شوگر مل مافیا کی لوٹ مار گنا اگانے والے غریب کسان کے ساتھ ظلم سے شروع ہوتی ہے جس کے اختتام یعنی چینی کی مہنگے داموں فروخت تک یہ ظلم و ستم جاری رہتا ہے جس کے درمیان میں کچھ اور مراحل بھی آتے ہیں جن کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔

چینی کا بحران پیدا کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق شوگر مل کی صنعت سے ہے۔ ان میں ایسے سیاستدان، بیوروکریٹ اور بااثر افراد شامل ہیں جو شوگر ملوں کے یاتو براہِ راست مالک ہیں یا پھر کسی نہ کسی طرح ان کے روابط شوگر ملز کے لین دین سے جا کر مل جاتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ لوگ کسان کے ساتھ لوٹ مار کرتے ہیں۔ شوگر ملیں گنا خریدنے سے پہلے کسانوں کو بلا جواز تنگ کرتی ہیں تاکہ وہ گنا انہیں سستے داموں بیچ دیں۔ چینی کی پیداوار حقیقتاً یا ظاہری طور پر بند کرکے کسانوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا گنا اب ہمارے کسی کام کا نہیں۔

مجبور ہو کر کسان گنا سستے داموں خریدنے پر مجبور ہوجاتا ہے کیونکہ اگر گنا بر وقت نہ بیچا جائے تو وہ سوکھ سکتا ہے، خراب ہوسکتا ہے اور اس کی قیمت ویسے بھی گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ گنے کی پیداوار جتنی تازہ ہوگی، اس کے مناسب دام لگنے کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے۔

یہ ظلم و ستم یہاں ختم نہیں ہوتا، بلکہ کسانوں کے ساتھ مول تول اور وزن کرنے میں بھی لوٹ مار کی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کسانوں کو ان کے گنے کا وزن 15 سے 30 فیصد تک کم بتا کر انہیں کم پیسے ادا کیے جاتے ہیں جس سے یہ صنعت ایک مافیا کا روپ دھار لیتی ہے۔

مسئلے کا حل

کسان اپنا خون پسینہ ایک کرکے فصلیں اگاتا ہے۔ حکومت کو اس کے مسائل کا احساس کرنا چاہئے اور شوگر مل مافیا کے لیے ایسے قوانین بنانے چاہئیں کہ مصنوعی انداز میں گنے کی قیمتوں کو کم کرنے اور تولنے میں ڈنڈی مارنے کا کوئی امکان تک باقی نہ رہے۔

دوسری جانب مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کو روکنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے جس کیلئے حکومتی پالیسیوں اور قانون سازی سے ہٹ کر زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے پالیسی سازوں کو اس مسئلے کے حل کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔

مصنوعی مہنگائی شوگر مل مافیا سے بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس سے چینی کے ساتھ ساتھ گندم، پھلوں اور سبزیوں سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کیلئے قانون میں ایسی سخت سزا متعین ہونی چاہئے جسے سامنے رکھتے ہوئے کوئی اس جرم کا ارتکاب نہ کرسکے۔

وزیرِ اعظم عمران خان غریب عوام کیلئے احساس ایمرجنسی کیش اور گھروں کی تعمیر میں مصروف ہیں، ایسے میں مصنوعی مہنگائی کا تدارک نہ کیا گیا تو تحریکِ انصاف کو آئندہ الیکشن میں وہ مینڈیٹ شاید نہ مل سکے جس کی وہ حقدار ہے۔ 

Related Posts