کراچی: جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ کا من پسند ملازمین کو نوازنے میں بھی مکمل جانبداری کی وجہ سے آفیسرز ایسوسی ایشن اور انتظامیہ کے مابین بھی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں، بعض متاثرہ ملازمین نے عدالت و نیب جانے کے لئے بھی تیاری کر لی ہے، جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ نے نجی بینکوں، کینٹین کے کرایوں، شعبہ تصنیف و تالیف کی فعالیت سمیت جامعہ کی بہتری کے لئے ضروری امور کے بجائے افسران و ملازمین کے نوازنے کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔آفیسر ایسوسی ایشن میں اختلافات کی وجہ سے ڈاکٹر حسان اوج نے اپنا استعفیٰ رجسٹرار کو جمع کرادیا ہے۔
جامعہ کراچی میں روز مرہ کے معاملات کا اختیار رکھنے والی قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر ناصرہ خاتون کے حکم پر رجسٹرارڈاکٹر مقصود انصاری کے دستخط سے جاری ہونے والی لسٹ کے مطابق 68ملازمین کو گریڈ 16سے گریڈ17میں اپ گریڈ کردیا ہے جس کی وجہ سے بعض ملازمین نے شدید احتجاج کیا ہے کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ نے سنڈیکیٹ کی روح سے یہ فیصلہ کیا ہے تو سنڈیکیٹ کی ہی سفارشات اُن کے کیسز کے حوالے سے بھی ہیں لہٰذاہ کمپیوٹر آپریٹرزکو بھی اپ گریڈ کیا جائے اور اگر جامعہ نے ڈی پی سی کی بنیا دپر یہ فیصلہ کیا ہےتو ڈی پی سی میں 68کے بجائے مزید درجنوں ملازمین کو بھی اپ گریڈ کیا جانے چاہیئے تھا۔
ملازمین کو اپ گریڈ کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والی کراچی یونیورسٹی آفیسرزویلفیئر ایسوسی ایشن کے مابین بھی پھوٹ پڑ گئی ہے، ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری فرید ماما کا کہنا تھا کہ جن کی اپ گریڈیشن ہوئی ہے ان کے لیٹرہفتہ کو ہی جاری کئے جائیں جب کہ اسسٹنٹ رجسٹرار (جنرل)فرمان رسول کا کہنا تھا کہ لیٹر پیر کو جاری کئے جائیں گے جس کی وجہ سے دونوں کے مابین تلخ کلامی ہو گئی، جس کے بعد فرمان رسول کی جانب سے رجسٹرار کے علم میں لانے کے بعد مطالبہ کیا گیا کہ فرید ماما تحریری طور پر معذرت کریں جس پر فرید ماما نے معذرت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
بعدازاں کراچی یونیورسٹی آفیسرزویلفیئر ایسوسی کے صدر ڈاکٹر حسان اوج نے خود ہی معذرت کی جس کے بعد جنرل سیکرٹری کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ وہ صدر ہیں اور انہیں بغیر کسی وجہ کے معذرت نہیں کرنی چاہئے تھی، جس کے بعد ڈاکٹر حسان اوج نے رجسٹرارڈاکٹرمقصود انصار ی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جس میں لکھا ہے کہ میں بحیثیت صدر استعفیٰ دے رہا ہوں اور میری جگہ نائب صدر متین عزیز آئندہ الیکشن تک ذمہ داریاں سنبھالیں گے کیوں کہ وہ ڈی پی سی، میڈیکل کمیٹی، ہاؤ س الاٹمنٹ کمیٹی سمیت دیگر کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔
معلوم رہے کہ جامعہ کراچی میں 2010 میں بھی خلاف ضابطہ اور غیر قانونی طور پر 16گریڈ میں 46 کمپیوٹر آپریٹر ز کو ترقی دی گئی تھی جس میں اس وقت بھی من پسند افراد کو نوازتے ہوئے انسینٹیو اسکیم کے تحت ایک با رپھر انہی من پسندافراد کو گریڈ 17 پر اپ گریڈ کیا گیا ہے،جب کہ اس وقت کے متاثرین اب بھی متاثرین ہیں، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جن کمپیوٹر آپریٹرز کو حالیہ دنوں میں گریڈ 14اور 16گریڈ میں اپ گریڈ کیا گیا ہے،اُنہیں سینئر کمپیوٹر آپریٹر کہا گیا ہے جبکہ غیر قانونی وخلاف ضابطہ 2010ء میں 16گریڈ کے ترقی پانے والے کمپیوٹر آپریٹر ہی کہلاتے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق 2010ء میں خلاف ضابطہ اور غیر قانونی طور پر منظور نظر 46کمپیوٹر آپریٹرز کو گریڈ 16میں ترقی دی گئی تھی،جبکہ دیگر شعبہ میں دیگر کمپیوٹر آپریٹر ز ترقی سے محروم رہے۔ متاثرہ کمپیوٹر ز آپریٹر نے صوبائی محتسب سندھ وسطی میں اپنی شکایتی درخواست جمع کرائی تھی جس پر صوبائی محتسب اعلیٰ سندھ وسطی نذیر احمد قدوائی نے 11جنوری 2017کو اپنے آفس آرڈر نمبر POS/185/2015/KC-408کے ذریعے جامعہ کے وائس چانسلر کو متاثرہ کمپیوڑآپریٹر کی اپ گریڈ کا مسئلہ جلد از جلد حل کر کے 45روز میں صوبائی محتسب کے دفتر میں رپورٹ جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔
اس حوالے سے جامعہ کراچی کے رجسٹرار صوبائی محتسب سندھ وسطی کو مسلسل اپنے خطوط کے ذریعہ غلط بیانی کا سہارا لیتے رہے اور جھوٹ بولتے رہے کہ کمپیوٹر آپریٹرز کا مسئلہ حل کردیا گیاہے،اس حوالے سے متاثرہ کمپیوٹر آپریٹرز نے صوبائی محتسب سندھ کو تمام حالات سے باخبرکیا،تاہم جامعہ کراچی کی انتظامیہ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ ہوسکی۔
گذشتہ سال 10اپریل 2021ء میں سینڈیکیٹ نے اپنی قرار داد میں واضح کیا تھا کہ کمپیوٹر آپریٹر ز گریڈ 15کے ملازمین کو 16میں تصور کیا جائے اور گریڈ 17کردیا جائے، تاہم جامعہ کراچی کی انتظامیہ اپنے ہی سینڈیکیٹ کے فیصلے کے بر خلاف کئی سالوں سے ترقی سے محروم کمپیوٹر آپریٹرز کو گریڈ 17دینے سے کتراتی رہی، جبکہ منظور نظر خلاف ضابطہ 16گریڈ میں ترقی پانے والے ملازمین کو انسینٹیو اسکیم کے تحت گریڈ 17میں ترقی دے دی گئی ہے، ترقی سے محروم کمپیوٹر آپریٹر ز میں بے چینی پھیل گئی ہے۔اس حوالے سے گذشتہ روز سینئر کمپیوٹر آپریٹر ز نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو خط ارسال کیا ہے جس میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قانونی کارروائی کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے مذکورہ خلاف ضابطہ اور غیر قانونی ترقی پانے والے کمپیوٹر آپریٹرز اتنے بااثر افراد ہیں کہ مستقل وائس چانسلر مرحوم ڈاکٹر محمد اجمل خان، قائم مقام وائس چانسلر خالد محمود عراقی اور اب موجودہ وائس چانسلر ناصرہ خاتون بھی اِن کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں، کیوں کہ ناصرہ خاتون کے پرسنل اسسٹنٹ(ڈین سائنس کے پرسنل سیکرٹری) گریڈ 16کے ملازم ضیا الحق اور اسسٹنٹ رجسٹرار (جنرل)فرمان رسول کی جانب سے گمراہ کن معلومات دیکر وائس چانسلر سے یومیہ کے بجائے باقاعدہ پالیسی کے فیصلے کرائے جارہے ہیں جن پر نیب کی انکوائری ہونے کے امکانات ہیں۔
ان ملازمین کے بااثر ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان ملازمین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دینا شروع کردی ہیں، جب کہ بعض ملازمین کی لیک ہونے والی آڈیو میں جامعہ کی انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے اور ان سے اپنے کام کرانے کا بھی کہا گیا ہے اور کام نہ کرنے کی صورت میں انتظامیہ کو فیل کرنے کے لئے ہیلے بہانوں سے کام روکنے اور کام نہ کرنے کی بھی سازش کی گئی ہے جب کہ ملازمین کی لیک ہونے والی آڈیو میں وائس چانسلر، ڈین آرٹس سمیت دیگر کئی افسران کے خلاف بھی انتہائی نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی کی قائم مقام انتظامیہ نے 68 افسران کو گریڈ 17 میں اپ گریڈ کردیا