جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ریاستی ستونوں کی جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ریاستی ستونوں کی جنگ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ریاستی ستونوں کی جنگ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ماضی میں کسی بھی ریاست کیلئے حکمران صرف ایک عدل پسند یا ظالم بادشاہ ہوا کرتا تھا لیکن آج کے دور میں ریاست کا حکمران کون ہے؟ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے اور دورِ حاضر میں ریاست کسی حکمران کے تحت نہیں بلکہ ستونوں کے تحت چلتی ہے جن میں فردِ واحد کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ سارا کھیل اجتماعی کردار اور لابنگ کا ہوتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر گزشتہ روز سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا جس میں ریاست کے دو ستون یعنی حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ آئیے ملکی تاریخ کے اس اہم کیس پر مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس اور صدر کو خط

عدالتِ عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف آج سے تقریباً 3 سال قبل ریفرنس صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے دائر کیا گیا جس پر مئی 2019ء کے اواخر میں جسٹس قاضی فائز نے صدرِ مملکت کو خط ارسال کیا جس میں مذکورہ ریفرنس کی کاپی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی۔

بعد ازاں 23 اکتوبر 2020ء کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ خفیہ معلومات افشاء کرنے پر وزیرِ قانون، چیئرمین اے آر یو اور چیئرمین ایف بی آر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ فیصلہ 224 صفحات پر مشتمل تھا۔

صدارتی ریفرنس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عائد کیے گئے الزامات 

ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس پر 14 جون 2019ء کو سماعت شروع ہوئی جس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو بطور پراسیکیوٹر پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

مذکورہ صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے خلاف آئین کی دفعہ 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی۔ ججز پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے اثاثے چھپائے اور غیر قانونی جائیدادیں بنائیں۔ 

حکومت اور عدلیہ کی رسی کشی 

وفاقی حکومت کی خواہش ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عہدے سے ہٹا دیا جائے تاہم یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے تاہم ایک اہم وجہ مختلف کیسز میں جسٹس فائز عیسیٰ کے دئیے گئے حکومت مخالف سخت ریمارکس ہوسکتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 10 جون 2019ء کو ایک خطاب کے دوران کہا تھا کہ حکومت جسٹس فائز عیسیٰ کو نہیں ہٹا سکتی۔ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا معاملہ ہے، عدلیہ پر اعتماد کیجئے، انصاف ضرور ہوگا۔ 

سخت ریمارکس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 

مقولہ مشہور ہے کہ جج نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں، تاہم پاکستان میں نہ صرف ججز بلکہ ان کے فیصلے بھی تفصیلی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اکثر و بیشتر حکومت مخالف بیانات دیتے رہتے ہیں جو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

ابھی 2 ماہ قبل یعنی 4 فروری 2021ء کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت مخالفین کو غدار اور حمایت کرنے والوں کو محبِ وطن کہتی ہے اور پاکستان کو منظم انداز میں تباہی کا شکار کیا جارہا ہے۔

معزز سپریم کورٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سرکردگی میں 2 رکنی ججز بینچ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ اسی دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں، میڈیا نمائندگان کو پیٹا جاتا ہے، اصل صحافیوں کو باہر پھینکا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ میڈیا کی تباہی ملک کی تباہی ہے۔ 

گزشتہ روز کا فیصلہ اور متوقع بحران 

عدلیہ کی تاریخ میں گزشتہ روز اہم موڑ آیا جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظرِ ثانی کی درخواستیں منظور کی گئیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ ججز کے 10 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ سرینا عیسیٰ کی درخواست 10 میں سے 6 ججز نے منظور کی۔ 4 ججز نے اختلاف کیا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اپیل پر فیصلہ 5، 5 سے برابر رہا۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف کارروائی کسی بھی فورم پر نہیں کی جاسکتی۔

قبل ازیں خود سپریم کورٹ نے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کی ہدایت کی تھی تاکہ اثاثے چھپانے سے متعلق الزامات کا جائزہ لیا جاسکے، تاہم سپریم کورٹ نے یہ ہدایت بھی واپس لے لی۔ ایف بی آر کی رپورٹ غیر مؤثر قرار دے دی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے خود اپنی ہی دی ہوئی ہدایت واپس لے لی جس سے نیا آئینی بحران متوقع ہے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت یہ نقطہ ضرور سامنے لاسکتی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ درست تھا تو اسے واپس کیوں لیا گیا اور اگر موجودہ فیصلے کو درست مانا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کیلئے درست فورم اگر سپریم کورٹ بھی طے نہیں کرسکی تو کون کرے گا؟اس طرح دو ریاستی ستونوں کی جنگ طول پکڑ جائے گی۔

Related Posts