13 جولائی 1931 جموں کشمیر کی تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ہے،سردار مسعود خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

13 جولائی 1931 جموں کشمیر کی تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ہے،سردار مسعود خان
13 جولائی 1931 جموں کشمیر کی تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ہے،سردار مسعود خان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مظفرآباد:آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے 13 جولائی 1931 جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ دن ہے جب خطہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور آج مقبوضہ جموں و کشمیر کے مجاہدین اور غازی اپنے مقدس لہو سے اس خونی تاریخ کا ایک اور باب رقم کر رہے ہیں۔

13 جولائی 1931 کے شہدا کے 90ویں یوم شہادت کے موقع پر صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ 13 جولائی 1931 مسلمانان جموں و کشمیر کی تاریخ میں وہ دن ہے جب وہ ظلم، جبر، نا انصافی اور ظالمانہ شخصی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بائیس انسانی جانوں کی قربانی پیش کر کے اس تحریک کی بنیاد رکھی جو بعد میں 1947 میں جموں و کشمیر کے ایک حصے کی آزادی پر منتج ہوئی۔

جو آج بھی جموں و کشمیر کے مقبوضہ حصے کی آزادی کے لیے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 13 جولائی 1931 کا واقعہ ظلم و ناانصافی کے خلاف پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے بھی کشمیری انیسویں صدی میں ڈوگرہ خاندان کے ظالمانہ حکمرانی کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں۔

سردار شمس خان کی قیادت میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی حکومت کے خلاف 1832 میں ہونے والی بغاوت اور اس بغاوت کے قائدین سبز علی خان اور ملی خان اور ان کے ساتھیوں کے سر قلم کر کے ان کے جسموں سے زندہ کھالیں اتارنے کے بعد ان کی لاشیں جس درخت کے ساتھ لٹکائی گئی تھیں وہ درخت آج بھی منگ آزاد کشمیر میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرینگر سینٹرل جیل کے سامنے پیش آنے والا سانحہ محض حادثہ نہیں تھا بلکہ اس واقعہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کی سخت گیر ظالمانہ حکومت کے خلاف مسلمانوں کے دل و دماغ میں ایک لاوا پک چکا تھا کیونکہ وہ طاقت کے زور پر اکثریتی مسلمانوں پر ان کی مرضی کے خلاف حکمرانی کر رہا تھا مہاراجہ کی حکومت میں اجرت کے بغیر مسلمانوں سے جبری مشقت کا عام رواج تھا۔

نا انصافی اور ظلم و ستم کا بول بالا تھا اور مہاراجہ کی حکومت کے کارندے منظم طریقے سے مسلمانوں کی مقدس علامتوں کی بے حرمتی کر کے ان کے جذبات کو مجروح کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔

13 جولائی کے واقعہ سے قبل قرآن پاک کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا اور مساجد کے آئمہ کو خطبات عید اور خطبات جمعہ پڑھنے سے روک دیا گیا تھا اور یوں مسلمانوں کے اندر حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبات پوری طرح موجزن تھے۔

اس پس منظر میں عبدالقدیر نامی نوجوان نے کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ظلم و جبر کی اس علامت کو مٹادو عبدالقدیر کی اس جرات پر اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا جس کی کارروائی سننے کے لیے چار سے پانچ ہزار مسلمان سینٹر جیل سرینگر پہنچ گئے۔

مزید پڑھیں: مزارات ہمارا تاریخی ورثہ ہیں ان کی بحالی اور تحفظ انتہائی اہم ہے، وزیراعظم عمران خان

جن میں سے صرف دو سو سرینگر سنٹرل جیل کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جہاں عبدالقدیر خان کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہو رہی تھی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران جب نماز ظہر کا وقت ہوا تو ایک مسلمان نوجوان نے کھڑے ہو کر آزان کے لیے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو ڈوگرہ فوج نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا اس طرح آزان مکمل کرنے کے لیے یکے بعد بائیس مسلمان کھڑے ہوئے جنہیں شہید کیا گیا۔

Related Posts