کیا تحریک انصاف بکھر رہی ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا تحریک انصاف بکھر رہی ہے ؟
کیا تحریک انصاف بکھر رہی ہے ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ کیا تحریک انصاف ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھررہی ہے۔ پچھلے چار پانچ برسوں کے دوران جو تنکا تنکا اکھٹا کر عمران خان نے آشیانہ بنایا،کیا وہ اب ٹوٹ کر گرنے، منتشر ہونے والا ہے،؟

وہ تمام بچے جو تحریک انصاف نے پچھلے چند برسوں میں گو دلیے تھے ، کیا اب وہ ایک ایک کر کے اپنے اصلی گھروں میں چلے جائیں گے؟
یہ وہ سوال ہے جس پر تحریک انصاف کے مستقبل کا انحصار ہے، اگلے الیکشن کے نتائج اسی سے پھوٹیں گے۔

پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اب تک کس کس نے چھوڑا؟

کہا جا رہا ہے مجموعی طور پرتیس سے چالیس سابق ارکان اسمبلی، رہنماﺅں اور تنظیمی عہدے نے تحریک انصاف کو خیرباد کہا ہے۔ یہ کام پنجاب میں نسبتاً زیادہ ہوا ہے، شائد اس لئے کہ تحریک انصاف کی پنجاب میں قوت بھی زیادہ ہے اور رہنما بھی، کے پی اور سندھ میں بھی تھوڑا بہت ایسا ہوا۔ کے پی میں مرکزی رہنماﺅں نے ابھی تک پارٹی نہیں چھوڑی اورامکان یہی ہے کہ وہاں سے وہی لوگ ہی الگ ہوں گے جنہیں پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا۔

نو مئی یا پاکستانی نائن الیون ؟
جو بھی رہنما چھوڑ کر جا رہے ہیں، ان سب نے نو مئی کے پرتشدد احتجاج کو وجہ بتایا۔ اب کسی کو پسند آئے یا نہ آئے ،حقیقت یہ ہے کہ نو مئی تحریک انصاف کی سیاسی زندگی کا بہت اہم اور فیصلہ کن موڑ تھا۔ جب یہ واقعہ ہوا تو میں نے اسی شام سوشل میڈیا سٹیٹس ڈالا کہ تحریک انصاف نے پچھلے ایک سال میں جو سیاسی کمائی کی تھی، وہ اس ایک دن میں ضائع کر دی۔ تحریک انصاف کے بہت سے حامیوں نے تب میری اس بات سے اختلاف کیا تھا، آج انہیں احساس ہوگا کہ واقعی اس دن جو ہوا وہ ایک بہت بڑا سیاسی بلنڈر تھا۔

تحریک انصاف کے ان رہنماﺅں پر پچھلے ایک سال میں اپنی وفاداری بدلنے یا پارٹی چھوڑنے کا دباﺅ رہا ہوگا، مگر نو مئی کا واقعہ اتنا بڑا، شدید اور دوررس نتائج والا تھا کہ اس کے بعد بہت سے انصافین کے لئے پارٹی چھوڑنے کا دباﺅ اتنا بڑھ گیا کہ انہیں فیصلہ کرنا ہی پڑا۔
پارٹی چھوڑ نے کے حوالے سے پہلا راﺅنڈ پچھلے چند دن تک چلتا رہا۔ اس میں دوسری اور تیسری صف کے لوگوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا، کسی نے سیاست بھی چھوڑ دی ۔

کس کس نے پارٹی چھوڑدی ہے؟
جنوبی پنجاب سے نوسابق ارکان اسمبلی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔ ان میں زیادہ تر جنوبی پنجاب(مظفرگڑھ، لیہ، ملتان وغیرہ)سے تھے۔ ان میں نیازگشگوری( مظفر گڑھ) ، عون ڈوگر(مظفر گڑھ)، ظہیر علیزئی( ملتان)، قیصر مگسی (لیہ)، علمدار قریشی( مظفر گڑھ)، اشرف رند (مظفر گڑھ)، جہانزیب وارن (بہاولپور)، مجتبیٰ متیلا (جہانیاں) شامل ہیں ۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے دوہفتے قبل ہی پنجاب کے لئے اپنے صوبائی اسمبلی کے امیدواران کی فہرست مکمل کی ، اس میں ان نو کے نوافراد کو ٹکٹ نہیں دئیے گئے ۔ان کی جگہ دیگر افراد کو تحریک انصاف کے ٹکٹ دے دئیے گئے ، یہ لوگ تب ہی سے ناراض تھے اور عملی طور پر پارٹی سے الگ ہی ہوچکے تھے۔ عبدالحی دستی کو ٹکٹ دینا تو درکنا ر، انٹرویو کے لئے بلایا تک نہیں۔ ان پر شبہ تھا کہ اعتماد کا ووٹ دینے کے لئے انہوں نے چودھریوں سے پیسے پکڑ لئے تھے۔

پنجاب سے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور عمران خان کے دیرینہ ساتھی عامر کیانی کا جانا اہم خبر بنی ۔ یہ طویل عرصے سے خان صاحب کے ساتھ رہے ۔انہوں نے صرف پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

پنجاب سے سابق ایم پی اے جلیل شرقپوری نے بھی تحریک انصاف چھوڑ دی، وہ پہلے ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی کا حصہ بنے تھے ۔ سابق صوبائی وزیر سعیدالحسن نے بھی پی ٹی آئی چھوڑ دی، پچھلے الیکشن میں وہ ضلع ناروال سے منتخب ہونے والے واحد غیر ن لیگی رکن صوبائی اسمبلی تھے، وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور صوبائی وزیراوقاف بنایا گیاتھا۔

فیصل آباد سے فیض اللہ کموکا کا پارٹی چھوڑنا بھی اہم خبر بنی۔ کموکا صاحب معروف کاروباری شخصیت اور صنعتکار ہیں، فیصل آباد میں وہ کئی برسوں سے پی ٹی آئی کے ساتھ رہے اور مشکل وقت بھی گزارا۔ آج کل ویسے کموکا کوپارٹی میں قدرے کارنر کئے جانے کی شکایت تھی۔

کے پی سے ہشام انعام اللہ نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ ان کا تعلق لکی مروت سے ہے، سابق صوبائی وزیر رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ علی امین گنڈاپور رہے ہیں۔ کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں گنڈاپور نے ہشام انعام اللہ کے پورے گروپ کو نظرانداز کیا، ہشام نے اپنے بندے آزاد کھڑے کئے اور تین تحصیلیں جیت کر دکھائیں اور پھر انہیں تحریک انصاف میں شامل کیا۔ اس بار بھی صوبائی اسمبلی کی ٹکٹوں کے حوالے سے امکان ہے کہ علی امین گنڈاپور ہشام انعام اللہ کو ٹکٹ نہ دیتا۔ ہشام انعام اللہ کی مشکل قابل فہم تھی۔

اجمل وزیر نے بھی پارٹی چھوڑی ، وہ الیکشن نہیں جیت سکے تھے، انہیں ویسے ہی مشیر بنایا ہوا تھا۔اقبال وزیر نے پارٹی چھوڑی، یہ وزیرستان سے ہیں۔جواد حسین اورکزئی ایم این تھے، وہ بھی چلے گئے ۔ عثمان تراکئی سابق ایم این اے نے بھی تحریک انصاف چھوڑ دی، ان کے اپنے کزن اور سابق صوبائی وزیر شہرام تراکئی کے ساتھ اختلافات چل رہے تھے۔

کراچی، سندھ سے تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے محمود باقی مولوی صاحب نے پارٹی چھوڑ دی۔ وہ دھیمے مزاج کے معتدل آدمی ہیں، انہوں نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کی اور پارٹی کے ساتھ سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے بعد کراچی تحریک انصاف کے صدر آفتاب صدیقی بھی مستعفی ہوئے۔ جے پرکاش اقلیتی ونگ کے صدر اور رکن اسمبلی بھی پارٹی چھوڑ گئے۔ سید عمران علی شاہ ، ڈاکٹر سنجے گنگوانی ،کریم بخش گبول اور عمار عمروی وغیرہ اراکین سندھ اسمبلی تھے، انہوں نے بھی ایک ایک کر کے تحریک انصاف چھوڑ دی۔ سندھ کے مرکزی رہنما علی زیدی کے بارے میں خبر چلی، مگر انہوں نے بعد میں پریس کانفرنس کر کے اس کی تردید کر دی اور انہیں جیکب آباد جیل بھیج دیا گیا۔

تیئس مئی
تیئس مئی کو تحریک انصاف کے دو اہم رہنماﺅں نے پارٹی چھوڑ دی۔ ان میں سے ڈاکٹر شیریں مزاری سرفہرست ہیں۔ شیریں مزاری اعلیٰ تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور انٹلکچوئل پروفائل رکھنے والے انصافین لیڈر تھیں جنہیں اپنے نیٹ کلین امیج اور نظریاتی ہونے کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ نومئی کے واقعے کے بعد سے شیریں مزاری مسلسل گرفتاریوں کا شکار رہیں۔ انہیں چار بار گرفتار کیا گیا، ضمانت کے بعد پھر پکڑ لیا جاتا، آخر پانچویں گرفتاری کے موقعہ پر انہوں نے ہار مان لی اور پریس کانفرنس کر کے پی ٹی آئی اور سیاست ہی کو خیربار کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی گرتی ہوئی صحت اور گھریلو مصروفیت کی بنا پر سیاست چھوڑ رہی ہیں، اب اپنی صحت، بزرگ والدہ اور گھر پر توجہ دیں گی۔

تیئس مئی کو گرنے والی دوسری وکٹ فیاض چوہان کی تھی۔ فیاض چوہان جماعت اسلامی کے پس منظر کے آدمی تھے، پچھلے کئی برسوں سے وہ تحریک انصاف میں ہیں اور تب سے ہیں جب وہ اقتدار کا حصہ نہیں بنی تھی۔ فیاض چوہان پچھلے دورحکومت میں ایک سے زائد بار صوبائی ترجمان رہے، وہ شعلہ بیان شخص ہیں اور گاہے ضرورت سے زیادہ سخت اور تندوتیز فقرے بھی سیاسی مخالفین خاص کر مریم نواز شریف پر کس دیا کرتے تھے۔
فیاض چوہان بھی پچھلے کئی روز سے گرفتار تھے، منگل کے روز انہوں نے پریس کانفرنس کر کے تحریک انصاف چھوڑ دی ۔ شیریں مزاری کے برعکس فیاض چوہان نے عمران خان پر تنقید کی اور ان سے گلے شکوے بھی کئے ۔ چوہان کے مطابق میں نے پارٹی کے لئے اتنی قربانیاں دیں مگر میری گرفتاری پر خان صاحب نے ایک سطری ٹوئیٹ کرنے کی زحمت نہیں کی، وغیرہ وغیرہ۔

اور کون جا رہا ہے؟
یہ بہت اہم سوال ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ بڑی خبر مخدوم شاہ محمود قریشی کے جانے کی بنے گی۔ ان کے بارے میں یہ سنا جا رہا ہے کہ وہ بھی پریس کانفرنس کرنے کو پر تول رہے ہیں۔ یہی معاملہ فواد چودھری کا بھی ہے۔اسی طرح اسد عمر ہیں۔ یہ تینوں رہنما پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف کا چہرہ رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ لوگ چھوڑ دیتے ہیں یا پھر علی زیدی کی طرح عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس گرمی میں جیکب آباد کی طرح کی گرم ترین جیل کی سختی برداشت کرتے ہیں ؟

اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ابھی دو ہفتوں قبل تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کی 297نشستوں پر پارٹی ٹکٹ جاری کیا، ان دو سو ستاون لوگوں میں سے ابھی تک سات نے بھی ٹکٹ واپس کر کے پارٹی نہیں چھوڑی ۔ ایک آدھ نے ہی اعلان کیا۔ اسی طرح کے پی میں بھی کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما پارٹی نہیں چھوڑ رہے ، وہاں بھی جسے ٹکٹ نہیں ملنے کا امکان، وہی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرے گا۔

مزید پڑھیں:بلال غفار،فردوس عاشق اعوان نے بھی پی ٹی آئی چھوڑدی

یہ فیصلہ کن نکتہ ہوگا کہ ٹکٹ ہولڈرز کتنی دیر تک تحریک انصاف کے ساتھ رہ پائیں گے؟ اگر شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چودھری چھوڑ جائیں تو بہرحال پھر نچلی سطح پر بھی بددلی پھیلے گی اور ٹکٹ ہولڈر بھی فرسٹریٹ ہوسکتے ہیں۔یہ اف اینڈ بٹس(If,s &Buts) پر ہی بہت کچھ منحصر ہے۔ یہی سیاست ہے اور یہی شائد زندگی۔

Related Posts