وزارت مذہبی امور، چوری شدہ مقالہ لے کر صدارتی ایوارڈ لینے کی انکوائری کٹھائی میں پڑ گئی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزارت مذہبی امور، چوری شدہ مقالہ لے کر صدارتی ایوارڈ لینے کی انکوائری کٹھائی میں پڑ گئی
وزارت مذہبی امور، چوری شدہ مقالہ لے کر صدارتی ایوارڈ لینے کی انکوائری کٹھائی میں پڑ گئی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: وزارت مذہبی امور کے دفتر سے ریاست مدینہ کے عنوان کا مقالہ چوری کر کے صدارتی ایوارڈ لینے پر انکوائری مکمل نہ ہو سکی۔

وزارت مذہبی امورا سلام آباد کی جانب سے ہر سال کی طرح گزشتہ برس بھی یاست مدینہ اور اسلامی فلاحی مملکت کا تصورکے عنوان سے انعامات کیلئے مقالے منگوائے گئے تھے، جس میں مجموعی طور وفاقی اور صوبائی سطح پر 36محققین کے مقالوں کو انعام کا اہل قراردیا جاتا ہے اور انہیں ربیع الاول کی تقریب میں صدر پاکستان کے ہاتھوں انعامات دلوائے جاتے ہیں۔

اس موضوع پر وزارت مذہبی امور کی جانب سے جمع کردہ مقالوں کی تعداد 100سے زائد تھی،جن میں سے جیتنے والوں میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا نام بھی تھا۔جنہیں صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انعامات و ایوارڈ سے نوازہ تھا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ مقالہ جات کی شائع ہو ے والی کتاب میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا مقالہ لفظ بہ لفظ ایک ہی جیسا تھا۔

جس کے بعد ایگیزیکٹیو ڈائیریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن اوررکن بورڈ آف گورنر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، معروف مذہبی اسکالر ومحقق ڈاکٹرعامرطاسین نے وزارت مذہبی امور کو ایک خط لکھا اور انکشاف کیا تھا کہ میرا مقالہ غائب کرکے اسلام آباد کی آسیہ اکرام کوبھی صدارتی ایوارڈ اور انعام سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر عامر طاسین نے 31 مارچ کو مذکورہ خط وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سیکرٹری مذہبی امور کے نام لکھ کر انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی۔

جس کے بعد سیکریٹری مذہبی امورسردار اعجاز احمد خان نے ڈائریکٹر جنرل مشاہد حسین کو انکوائری کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر مشاہد حسین دو ماہ گزرنے کے باوجود انکوائری مکمل نہ کر سکے۔

گزشتہ دنوں سیکریٹری مذہبی امورسردار اعجاز احمد خان نے ڈائریکٹر جنرل،شعبہ تحقیق مشاہد حسین سمیت وزارت کے سینئر افسران کا اجلاس منعقد کر کے انکوائری رپورٹ کے بارے میں معلوم کیا اور مقالہ سیرت میں ایک ہی مقالہ ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کے نام سے شائع ہونے پر حیرت کا اظہار بھی کیا اور ساتھ ہی ڈی جی سے سوال کیا کہ یہ کس کی ذمہ داری تھی اوربغیردیکھے یہ کیسے شائع ہوا ہے؟

کیا ایسی غفلت پر وزارت بدنامی کا باعث نہیں بنے گی؟ ڈائریکٹر جنرل کے معقول جواب نہ دینے پر سیکریٹری نے سخت افسوس اور برہمی کا اظہار کیا اور فوری طور پر وزارت کے 4 سینئر افسران جس میں تین جوائنٹ سیکریٹریز اور ڈپٹی سیکریٹری شامل ہیں ان کو جلداز جلد انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیا۔

وزارت کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کمیٹی نے انکوائری پر مشتمل کچھ سوالات مرتب کیے ہیں،جو آسیہ اکرام اور ڈاکٹر عامر طاسین کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔جن میں فریق اول ڈاکٹر عامر طاسین کی جانب سے تفصیلی جواب وزارت کو موصول ہو چکا ہے، جب کہ فریق دوم آسیہ اکرام نے خط وصول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ جب کہ اس قبل وزارت نے آسیہ اکرام سے جس فون نمبر پر بات کی وہ اب مستقل بند آ رہا ہے۔

انکوائری کمیٹی اس بات کی بھی تحقیق کر رہی ہے کہ وزارت کو موصول ہونے والے مقالہ جات کو کون جمع کرتا ہے؟ کون انٹری کرتا ہے،ایپکیس کمیٹی کے سامنیاور ججز حضرات کو کون بھیجتا ہے؟ مقالات سیرت شائع کرنے،پروف ریڈ کرنے کی کس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جیسے دیگر اہم معاملات کی انکوائر ی کے لیے انکوائری کمیٹی نے ڈی جی مشاہد حسین، ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ عبد القدوس، ڈپٹی ڈائریکٹر سیرت حافظ غلام مصطفی،اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد خلیق، عائشہ اعجاز،اقصی مختار،سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد علی جن کا تبادلہ ہو چکا ہے کے علاوہ شعبہ میں موجودمختلف نائب قاصد سیبھی انکوائری کی جا رہی ہے۔

اس معاملے میں دلچسپ موڑ اس وقت سامنے آیا جب مبینہ طور پر سرقہ کرنے والی خاتون آسیہ اکرام کے دفاع میں کراچی شپ اونر کالج سے نکالے گئے پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی متحرک نظر آئے، ڈاکٹر صلاح الدین ثانی نے نہ صرف آسیہ اکرام کو بہترین علمی شخصیت اور مقالہ نگار قرار دیا ہے بلکہ ڈاکٹر عامر طاسین پر آسیہ اکرام کے مقالہ پر سرقہ کا الزام لگایا ہے۔ صلاح الدین ثانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آسیہ اکرام سے جب رابطہ کیا تو انہوں بھی ڈاکٹر عامر طاسین کے الزام کو غلط اور بہتان پر مبنی قرار دیا ہے۔

جبکہ وزارت مذہبی امور کی چار رکنی انکوائری کمیٹی کے رابطہ کرنے پر آسیہ اکرام نے نہ تو خط وصول کیا ہے اور نہ اب ان کا فون کھلا ہوا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صلاح الدین ثانی کی اس پریس ریلیز کی بھی انکوائری ہو رہی ہے کہ انہوں نے ایک معتبر علمی شخصیت ڈاکٹر عامر طاسین کے خلاف کس بنیاد پر الزام لگائے ہیں اور اس حوالے سے ان کے پاس کیا شواہد ہیں؟ اس حوالے سے متعدد بار صلاح الدین ثانی سے رابطے کی کوشش کی تاہم فون ریسیو نہیں ہوا۔

انکوائری کمیٹی کی جانب سے اب تک کی معلومات کے مطابق انہیں آسیہ اکرام کا مقالہ جمع کراتے وقت کا کوئی ثبوت نہیں ملاہے اور نہ ہی ان کی سی وی مل سکی ہے، جس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اس خاتون نے قواعد و ضوابط کے خلاف بذریعہ ڈاک مقالہ نہیں بھیجا ہے بلکہ دفتر ہی کے کسی عملہ نے دستی جمع کرایا ہے۔ وزارت میں اس خاتون کا سہولت کار کون ہے؟تحقیقات میں متعلقہ شعبہ کئی افسران کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔

بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب اپنی نوکری بچانے کی خاطر اس خاتون کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے اس خاتون نے نہ صرف اپنا نمبر بند کر دیا ہے بلکہ وزارت کی جانب سے ارسال کردہ خط کو بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

کمیٹی کے سربراہ سینئر جوائنٹ سیکریٹری حج عالمگیر احمد خان نے نمائندہ ایم ایم نیوز کے رابطہ کرنے پر موقف دیا کہ آسیہ اکرام سے رابطہ کی کوششیں جاری ہیں،ہمارے افسران اور عملہ جب وہاں جاتا ہے تواس وقت اس گھر میں موجود بتاتے ہیں کہ آسیہ اکرام کی فیملی یہاں سے جا چکی ہے اور جب کوریئر کمپنی کے لوگ جاتے ہیں تو ان سے کوئی بھی نوٹس وصول نہیں کرتا ہے جبکہ ڈاکٹر عامر طاسین نے اپنا جواب جمع کرا دیا ہے اور ممکنہ طور پر ایک ہفتہ تک انکوائری مکمل کر لی جائے گی۔

Related Posts