جناح اسپتال کے شعبہ امراضِ سینہ میں غفلت و ناقص کارکردگی کیخلاف انکوائری شروع

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کے تین بڑے اسپتال 25 برس کیلئے سندھ حکومت کو دینے کی منظوری
کراچی کے تین بڑے اسپتال 25 برس کیلئے سندھ حکومت کو دینے کی منظوری

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جناح اسپتال کا شعبہ امراض سینہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، شعبہ میں سرنجز، درد کش اور اینٹی بائیوٹک ادویات تک ناپید ہیں، ڈرپس، انجکشن اور پیشاب کی نلکیاں تک باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔

شعبہ امراض سینہ کی سربراہ ڈاکٹر نوشین کی عدم دلچسپی کے باعث وارڈ کو ناتجربہ کار ہاؤس آفیسر کے سپرد کر دیا گیا ہے جس کے باعث رات میں ڈیوٹی دینے والے پوسٹ گریجویٹس مریضوں کا معائنہ تک کرنا گورار نہیں کرتے۔

ایم ایم نیوز کے سروے کے مطابق وارڈ کے بستروں پر چادریں موجود نہیں ہوتیں، وارڈ میں بلیوں کی بھرمار ہے جو بستروں سے ڈاکٹر کے کاؤنٹر تک پر بیٹھی نظر آتی ہیں۔

مریضوں کی حالت غیر ہونے پر ہاؤس آفیسرز کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں جبکہ ان کی مدد کے لئے نرسیں بھی موجود نہیں ہوتیں،صرف 2 نرسوں سے پورے وارڈ کو چلایا جا رہا ہے۔

ایم بی بی ایس کی تعلیم سے تازہ فارغ التحصیل ہاؤس آفیسرز نے وارڈ کو تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ ہر ہاؤس آفیسر باری باری اپنے تئیں ایک ہی مریض کا معائنہ کرتا نظر آتا ہے،ایسے میں سانس کی تکلیف میں مبتلا مریض کا ہسٹری بتاتے بتاتے سانس مزید دہرا ہو جاتا ہے۔

سروے میں بات بھی سامنے آئی کہ سانس کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کے خون میں آکسیجن کی مقدار معلوم کرنے کے لئے صبح شام کرائے جانے والے آرٹیرئل بلڈ گیسز (ایبی جیز) ٹیسٹ کی مشین بھی وارڈ میں نصب نہیں۔

مریضوں کے تیمارداروں کو پہلے ادویات کے لئے بار بار اسپتال سے باہر بھیجاجاتا ہے جس کے بعد سارا دن غیر ضروری ٹیسٹوں کے لئے چکرلگوائے جاتے ہیں،اس بات سے قطع نظر کے لیبارٹری وارڈ سے کتنی دور ہے اور بار بار پیدل چلنے سے تیمارداروں کا کیا حال ہو گا۔

مریضوں کو پیشاب کی نلکیاں لگانے کا کام بھی ہاؤس آفیسر سیکھنے کے لئے خود کرتے نظر آتے ہیں جس سے مریضوں کو شدید اذیت ہوتی ہے،وارڈ میں جدید مانیٹرز غیر فعال ہیں جبکہ باتھ روم گندگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

وارڈ کی بد حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وارڈ میں رکھے گئے چولہے سے گیس کی لیکیج کے باعث گزشتہ روز آگ بھڑک اُٹھی جس سے ایک مریضہ کی تیمار دار کے عبایہ کا کچھ حصہ جل گیا تاہم وہ محفوظ رہیں۔

وارڈ میں موجود ڈاکٹر اور نرسز کو واقعہ سے آگاہ کیا گیا تاہم انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا، نہ ہی چولہے اور گیس کی لیکیج کو ٹھیک کیا گیا جو کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جناح اسپتال کا شعبہ امراض سینہ پاکستان کے بہترین شعبہ جات میں سے ایک تھا۔ پاکستان میں پہلی بار کسی سرکاری اسپتال میں سینے کے مریضوں کے لئے مخصوص آئی سی یو جناح اسپتال کے شعبہ میں قائم کیا گیا۔

ملک کے مشہور و معروف اور مایہ ناز ماہرین امراض سینہ نے وارڈ میں مریضوں کی خدمت کی لیکن پروفیسر ندیم رضوی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے وارڈ روبہ زوال ہے۔

اس سلسلے میں جناح اسپتال کے شعبہ امراض سینہ کی سربراہ ڈاکٹر نوشین سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اپنے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو جواب دہ ہیں۔

دوسری جانب جناح اسپتال کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول کااس حوالے سے کہناہے کہ شعبہ امراض سینہ کے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے کے لئے شعبہ کی سربراہ ڈاکٹر نوشین کو 15 دنوں کا وقت دیا ہے اگر ان سے مسائل حل نہ ہو سکے توا ن کی جگہ کی کسی پروفیسر کو تعینات کر دیا جائے گا۔

پروفیسر شاہد رسول کا کہنا تھا کہ وارڈ کے مانیٹر، آکسیجن لائنوں اور چولہے کو ٹھیک کر دیا ہے۔ بستروں پر چادروں کیلئے وارڈ ماسٹر کو ہدایت کی ہے کہ روزانہ نئی چادریں بستروں پر ڈالی جائیں، بلیوں کے خاتمے اور صفائی کے لئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

پوسٹ گریجویٹس کی نگرانی کیلئے افسر تعینات کر دیا ہے جو روزانہ مختلف اوقات میں وارڈ کا دورہ کریں گے اور ڈاکٹروں کی رپورٹ انتظامیہ کو دیں گے جبکہ وارڈ کے باہر سے ادویات منگوانے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وارڈ کی کارکردگی جانچنے کے لئے اجلاس طلب کیا تھا جس میں وارڈ کے ڈاکٹروں نے شرکت کی جنہیں کارکردگی بہتر کرنے کی ہدایت کی اور ڈاکٹروں کو آگاہ کر دیا ہے کہ جو کام نہیں کر سکتا اس کا دوسرے شعبے میں تبادلہ کر دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: جناح ہسپتال میں تعینات پولیس اہلکاروں کا رات کو ڈیوٹی کے دوران نیند پوری کرنے کا انکشاف

Related Posts