طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں خواتین کا مستقبل کیا ہوگا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

POLICE STARTS DATA COLLECTION OF AFGHAN NATIONALS IN KARACHI

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکا کی جانب سے مسلط کردہ 20 سالہ جنگ کے اختتام کے بعد افغان سرزمین پر ایک بار پھر طالبان اقتدار سنبھال چکے ہیں اور پوری دنیا میں جہاں طالبان کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آرہی ہے وہاں اقوام متحدہ نے افغانستان میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھادیئے ہیں اور سنجیدہ حلقوں میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں خواتین کا مستقبل کیا ہوگا۔

طالبان دور اور خواتین
امریکا کی آمد سے قبل افغانستان میں1996ء سے 2000ء تک طالبان کی حکومت تھی اور ملک میں خواتین کے حوالے سے اس دور میں سخت قوانین نافذ تھے، ماضی میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی اور گھرسے باہر نکلنے کیلئے محرم کی موجودگی اور برقع لازمی تھا۔

بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی تھی جبکہ نامحرم سے بات کرنے کی ممانعت تھی۔افغانستان میں طالبان کے گزشتہ دور میں خواتین کو احکامات ناماننے والی خواتین کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں حتیٰ کہ خواتین کو سرعام کوڑے مارنا اور قتل کرنا بھی عام تھا۔

خواتین کا موقف
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر افغانستان کی خواتین میں سراسیمگی پھیل گئی ہے اور خواتین شدید خوف کا شکار ہیں، خواتین کا کہنا ہے کہ اب ہماری آزادی پر قدغن لگ جائیگی اور ہماری زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائینگے۔

خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان پھرہماری آزادی چھین لینگے، اس لئے ہمارا افغانستان میں رہنا ناممکن ہوگیا ہے۔خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان کسی بھی گھر پر قبضہ کر سکتے ہیں، کسی کو بھی قتل کرسکتے ہیں ۔ طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی کے ساتھ ہی ہم اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ گئی ہیں ہماری تعلیم اور گھر سے نکلنا بند کردیا ہے جبکہ اقتدار ملنے کے بعد ہمیں برقعے میں زندگی گزارنا ہو گی۔

اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کو افغانستان میں طالبان کی جانب اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے حقوق سے متعلق خدشات لاحق ہوگئے ہیں،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں طالبان اور دیگر تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی جانوں کے تحفظ اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں۔

اقوام متحدہ نے طالبان پر زور دیا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں، سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔

ملالہ یوسفزئی
نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ جیسے جیسے طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں ہم مکمل طور پر سکتے میں ہیں اورانسانی حقوق کے حوالے سے تشویش لاحق ہے۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں ملالہ یوسفزئی نے کہاکہ میں خواتین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اقلیتوں کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔ انہوں نے کہاکہ عالمی، مقامی اور خطے کی طاقتوں کو فوری سیزفائر پر زور دینا ہو گا اور فوری انسانی امداد اور پناہ گزینوں اور سویلین کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

افغان طالبان
طالبان قیادت کاکہنا ہے کہ طالبان کی اصل آزمائش اب شروع ہوئی ہے، عوام کی خدمت کرکے دنیا کے لیے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں ،کسی خونریزی کے بغیر کابل فتح کرنے پر خوش ہیں، عارضی نظم و نسق کیلئے رابطہ کونسل بن گئی ہے۔

طالبان رہنماؤں نے کہا ہے کہ مستقبل کا فیصلہ وسیع تر مشاورت سے ہوگاتاہم ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ہم ایک جامع اسلامی حکومت چاہتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ تمام افغان اس حکومت کا حصہ ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان وہ انتقام لینے کا ارادہ نہیں رکھتے اور خواتین کے حقوق، میڈیا نمائندوں اور سفارتکاروں کی آزادی کا یقین دلاتے ہیں۔

خواتین کا مستقبل 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کاکہنا ہے کہ طالبان کے دور میں لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی تھی اور گزشتہ دنوں طالبان کے چند علاقوں پرقبضے کے بعد نوجوان لڑکیوں کو جبری شادی کیلئے مبینہ احکامات کا معاملہ بھی سامنے آچکا ہے اوراب ایک مرتبہ پھر طالبان کے اقتدار میں آنے کے امکانات میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں خواتین کے لیے صورتحال دوبارہ خراب ہو سکتی ہے۔

طالبان کے گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میں افغان بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد رہی تھی اگرچہ 2020ءمیں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بچیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں لیکن خدشات ہیں کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بچیوں کی تعلیم پرپابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔

خواتین کے کام کرنے کے حوالے سے بھی سخت پابندیاں اور لباس کے معاملے میں بھی لڑکیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ دوروز سے افغانستان سے شہریوں کی بڑی تعداد ملک سے فرار کیلئے راہ تلاش کررہی ہے۔

Related Posts