اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایل این جی ریفرنس میں سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی درخواست ضمانت منظور کر لی، عدالت نے ایک کروڑ روپے مالیت کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار مفتاح اسماعیل کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
مفتاح اسماعیل کےوکیل نے کہا کہ کنسلٹنٹ کو یو ایس ایڈ نے لگایا، مفتاح اسماعیل اس وقت سوئی سدرن بورڈ میں بھی نہیں تھے، جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے حوالے سے فیصلہ ہوچکا ہے، تینوں دستاویز میں ایک ہی الزام لگایا گیا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ مفتاح اسمٰعیل کی حراست کے دوران تفتیش میں کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حراست کے دوران کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، صرف دستاویزات حاصل کیے گئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب پراسیکیورٹر سے استفسار کیا کہ مفتاح اسماعیل کا کتنا جسمانی ریمانڈ لیا گیا؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مفتاح اسماعیل 49 روز نیب حراست میں رہے،نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بغیر کسی ٹینڈر اور اشتہارات کے خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔
انہوں نےکہا کہ سیکریٹری پیٹرولیم ایل این جی کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر ہوتا ہے، اگر سیکریٹری نہ کرے تو کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔
نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایل این جی کیس کے گواہوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں،عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کس گواہ کو دھمکی دی گئی؟ جس پر نیب حکام نے بتایا کہ چیئرمین سوئی سدرن کمپنی زہیر صدیقی گواہ ہیں انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وہ تو خود کئی ریفرنس میں نامزد ہیں، ساری دنیا ان کو جانتی ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جرم ثاب ہونے تک ملزم بے گناہ تصور ہوتا ہے جبکہ وائٹ کالر کرائم میں کسی کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ کی رہائی کا فیصلہ معطل کردیا