ای او بی آئی محنت کشوں کی فلاح و بہبود کا ادارہ یا سفارشی افسران کی پرورش گاہ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایم ایم نیوز کی نشاندہی کے بعد ای او بی آئی کا متنازعہ نوٹی فکیشن واپس
ایم ایم نیوز کی نشاندہی کے بعد ای او بی آئی کا متنازعہ نوٹی فکیشن واپس

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :   EOBI محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے بجائے سفارشی افسران کی پرورش گاہ بن گیا ۔20 سے 30 فیصد افسران کے بجائے 50 فیصد افسران اور 50 فیصد ملازمین ادارے کو چلا رہے ہیں۔

کسی بھی دیگر سرکاری ادارے کے برعکس ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی ) میں377 افسران اور 380 دیگر ملازمین موجود ہیں۔ افسران کی بہتات کے باوجود لاکھوں محنت کش رجسٹریشن سے محروم ہیں۔ ادارہ کے اسٹاف ملازمین گذشتہ 5 برسوں سے تنخواہوں میں اضافہ سے محروم  ہیں، جب کہ افسران کی ہر سال تنخواہیں بڑھائی جارہی ہیں۔ بیشتر سفارشی افسران کی تعلیمی قابلیت، تجربہ اور کام میں مہارت اسٹاف ملازمین کی نسبت کم ہے۔

نااہل افسران محنت کشوں کے کنٹری بیوشن کی رقوم میں غبن کر کے کروڑ پتی بن گئے ہیں اور ہزاروں غریب محنت کش اپنی پنشن کے حق سے محروم ہیں۔ سنگین بدانتظامیوں، اربوں روپے کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے باعث ادارہ میں فرض شناس، دیانتدار اور سفید پوش افسران اور اسٹاف ملازمین کے لئے عزت سے ملازمت کرنا دوبھر ہو گیا ہے۔

وزارتِ سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ماتحت محکمہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کاقیام قانون مجریہ 1976ء کے تحت سماجی بیمہ نظام (Social Insurance System) کے تحت لایا گیا تھا۔ جس کے صنعتی، کاروباری، تجارتی، تعلیمی، رفاہی اور دیگر نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو رجسٹرڈ کر کے اوران سے ماہانہ کنٹری بیوشن وصول کرنا اور ان کے بیمہ شدہ ملازمین کو بڑھاپے، معذوری اور ان کی وفات کی صورت میں ان کی بیواؤں کو پنشن فراہم کرنا تھا۔

گذشتہ 3 دہائیوں میں فلاحی ادارہ میں سیاسی بنیادوں، بھاری سفارشوں اور اقرباء پروری کے ذریعہ بھرتیاں کی گئیں، جس کی وجہ سے اس وقت ای او بی آئی میں کسی بھی دیگر ادارے کی نسبت افسران کی تعداد زیادہ ہے۔ سرکاری و نجی اداروں میں انتظامی و مالیاتی امور چلانے اور کارکردگی کے لئے افسران اور اسٹاف ملازمین کے درمیان ایک منطقی تناسب برقرار رکھا جاتا ہے ۔ لیکن ای او بی آئی کے انتظامی ڈھانچہ میں افسران کی تعداد 30 فیصد اور ملازمین کی تعداد 70 فیصد ہوتی ہے۔

ادارے میں کل عملہ کی تعداد 717 بتائی جاتی ہے۔ افسران کیڈر میں ایک چیئرمین، خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات 4  ڈائریکٹر جنرل، 8 قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، 10 ڈائریکٹر، 57 ڈپٹی ڈائریکٹر، 246 اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور 11 ایگزیکٹو افسران شامل ہیں ۔ اس طرح اس ادارہ میں افسران کی کل تعداد 377 بتائی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں ادارہ کے اسٹاف ملازمین کی تعداد 380 بتائی جاتی ہے۔ جن میں 57 سپرنٹنڈنٹ ، 12 پرائیویٹ سیکریٹریز ، 128 سینئر اسسٹنٹ، 31 پرسنل سیکریٹریز، ایک الیکٹریشن 3 اسسٹنٹ ، ایک دفتری، 119 نائب قاصدین ، 26 ڈرائیورز اور 2 ڈسپیچ رائیڈرز شامل ہیں ۔

ای او بی آئی میں کوٹہ سسٹم کی خلاف ورزی

ای او بی آئی کے افسران کی اکثریت سفارشی، غیر متعلقہ ڈگریوں، جعلی ڈومیسائل کے حامل، صوبائی کوٹہ کی خلاف ورزی، نان کیڈر، قائم مقام، دوہرے اور تہرے چارج کے حامل، او پی ایس اور آؤٹ آف ٹرن ترقیوں کے حامل منظور نظر افسران پر مشتمل ہے۔ اس کی ایک مثال جعلی ڈگری کے حامل افسر لال خان جتوئی، ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ہیں۔ جنہیں ای او بی آئی میں 30 برسوں تک جعلی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کرنے کے بعد کچھ عرصہ قبل ہی برطرف کیا گیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ای او بی آئی میں بعض بااثر اور چہیتے افسران کی تعلیمی قابلیت محض میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور بی اے ہے ۔ ادارہ کے انتہائی کلیدی عہدوں پر فائز اعلیٰ افسران کی قابلیت اور معیار کا یہ عالم ہے کہ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے کلیدی عہدہ پر فائز نزہت اقبال، ایم اے اردو کی ڈگری اور سندھ دیہی (ضلع دادو) کے ڈومیسائل کی حامل اور آفس ڈرافٹنگ کرنے، کمپیوٹر چلانے اور email کے استعمال سے بھی قطعی ناواقف ہیں۔ معلوم ہوا ہے نزہت اقبال، ڈپٹی ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ 2017ء میں ادارہ کے افسران کی اگلے عہدوں پر ترقیوں کے لئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منجمنٹ (PIM) کراچی کے ٹریننگ کورس میں فیل ہو جانے کے باوجود ادارہ کے بعض افسران کی مدد سے اگلے گریڈ میں ترقی پانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

اسی طرح ای او بی آئی کا ایک اور بااثر افسر سجاد احمد ڈائریکٹر/ ریجنل ہیڈ فیصل آباد ہے، جو ایم اے پنجابی کی ڈگری کا حامل اور انٹیلی جنس بیورو ، اسلام آباد (IB) کا سابق ملازم بتایا جاتا ہے۔ خلاف ضابطہ بھرتی کے باوجود سجاد احمد ادارہ کے سینئر اور مستحق افسران کا حق مار کر ناصرف ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہو جانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ بلکہ ترقیوں پر ترقیاں حاصل کر کے ڈائریکٹر، آپریشنز کے عہدہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سجاد احمد ای او بی آئی کے نیب و ایف آئی اے زدہ سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی جانب سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں اربوں روپے کی میگا کرپشن کیسوں میں خصوصی دست راست، راز داں اور فرنٹ مین بھی رہا ہے ۔

اسی طرح ٹریننگ کورسوں میں بار بار فیل ہونے کے باوجود ترقیوں پر ترقیاں پانے والا پیپلز پارٹی کا جیالا افسر لیاقت علی مہیسر بھی ہے۔ جو اب ڈائریکٹر /ریجنل ہیڈ سکھر کے کلیدی عہدہ پر فائز ہے۔ اس کے علاوہ 2014ء میں بھرتی ہونے والا ایک افسر صہیب علی بیگ عرف نفسیاتی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہے، جو اس قدر اہم پوسٹ پر فائز ہونے کے باوجود دفتری امور اور کارکردگی میں بالکل صفر ہے۔ جب کہ اس کے مقابلہ میں ای او بی آئی کے متعدد اسٹاف ملازمین ان سفارشی اور نااہل افسران کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، دفتری امور میں کہیں زیادہ مہارت اور تجربہ کے حامل بتائے جاتے ہیں۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور میں سابق وفاقی وزیر محنت سید خورشید احمد شاہ کی سفارش پر ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر بھرتی شدہ نااہل اور مشکوک ڈگری کا حامل افسر نرمل عرف نام دیو، ڈائریکٹر (ہارڈویئر اینڈ نیٹ ورکنگ) آئی ٹی ڈپارٹمنٹ ہے جو اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی کے لحاظ سے اس اہم عہدہ کے لائق ہی نہیں ہے اور اب ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، آئی ٹی کے عہدہ پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ جبکہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں متعدد باصلاحیت اسٹاف ملازمین سفارشی افسر نرمل نام دیو کے مقابلہ میں بہترین انداز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن تگڑی سفارش نہ ہونے کے باعث مجبورا چھوٹے عہدہوں پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔

حتیٰ کہ ادارہ کے ہیڈ آفس، بی اینڈ سی کے ڈپارٹمنٹ اور ریجنل آفسز میں تو گریڈ ایک کے نائب قاصدین تک ان نااہل افسران کے مقابلے میں بہتر انداز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ای او بی آئی کے نااہل، سفارشی اور بدعنوان افسران کے مقابلہ میں ادارہ کے تجربہ کار اور اپنے کام میں ماہر اور فرض شناس اسٹاف ملازمین کی روشن مثالیں ادارہ کے ہر ڈپارٹمنٹ میں موجود ہیں ۔

2014ء میں بلا کسی تجربہ اور انٹرویو کے بھرتی ہونے والی خواتین اسسٹنٹ ڈائریکٹرز جن میں کراچی سنٹرل ریجن کرپشن فیم رابیل اعوان، اسسٹنٹ دائریکٹر چیئرمین آفس سمعیہ نور قریشی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریجنل آفس ویسٹ وہارف، جنت ناریجو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس ڈیپارٹمنٹ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ خواتین افسران ای او بی آئی کی میڈیکل کی بھاری سہولیات سے بھرپور فوائد اٹھانے کے علاوہ تاخیر سے دفتر آنے اور جلد گھر چلے جانے کی سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ای او بی آئی کی پرانی خواتین اسٹاف ملازمین کسی بھی اضافی سہولت کے بغیر اپنے چھوٹے عہدوں اور کم تنخواہوں پر قناعت کرتے ہوئے نہایت فرض شناسی اور لگن سے خدمات انجام دے رہی ہیں ۔

ان سفارشی اور بااثر افسران کے مقابلہ میں ادارہ کے اکثر اسٹاف ملازمین کی تعلیمی قابلیت ایل ایل بی، ایم اے اکنامکس، ایم اے انگلش، ایم بی اے، کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ڈپلومہ ہولڈر ہیں اور ای او بی آئی کے دفتری امور میں وسیع تجربہ کے حامل بھی ہیں۔ لیکن اپنی اس اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور بھرپور تجربہ کے باوجود یہ اسٹاف ملازمین انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث گزشتہ 20 سے 30 برسوں سے اپنی جائز ترقیوں اور حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ ای او بی آئی انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور لاپروائی کے باعث ادارہ کے اسٹاف ملازمین کے لئے کوئی کیریئر پلاننگ، ٹریننگ، ترقیوں اور ان کے روشن مستقبل کے لئے کبھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔

ادارہ کے بے شمار اسٹاف ملازمین اپنی ترقیوں کا انتظار کرتے کرتے یا تو ملازمت سے ریٹائر ہو گئے ہیں یا بہت سے اپنی ترقیوں کی حسرت لئے اس دنیا سے ہی رخصت ہو گئے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے اسٹاف ملازمین کے مسائل سے مسلسل عدم دلچسپی اور لاپروائی سے تنگ آ کر حال ہی میں ادارہ کے 39 پی اے اور پی ایس نے اپنی جائز ترقیوں کے لئے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

ای او بی آئی کی انتظامیہ ادارہ کے اسٹاف ملازمین کے دیرینہ مسائل سے عدم دلچسپی کے باعث شدید مہنگائی کے اس طوفان میں بھی ای او بی آئی کے محدود آمدنی والے اسٹاف ملازمین گذشتہ 5 برسوں سے پرانی تنخواہوں اور سہولیات پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ ای او بی آئی کے اسٹاف ملازمین وفاقی حکومت کی جانب سے 2017ء کے قومی بجٹ میں سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کے ملازمین کے لئے اعلان کردہ نظر ثانی شدہ پے اسکیل اور اس کے بعد کے برسوں میں قومی بجٹ میں اعلان کئے جانے والے تمام ایڈہاک الاؤنسوں سے بھی محروم چلے آ رہے ہیں۔ جب کہ ای او بی آئی کا بورڈ آف ٹرسٹیز پہلے ہی نظر ثانی شدہ پے اسکیل 2017ء اور تنخواہوں میں اضافہ کی منظوری دے چکا ہے ۔ لیکن ادارہ کے پاس اس ضمن میں مختص فنڈ ہونے کے باوجود ای او بی آئی کی ڈیپوٹیشن انتظامیہ کی ادارہ کے اسٹاف ملازمین کے مسائل سے عدم دلچسپی کے باعث یہ اہم معاملہ کافی عرصہ سے فنانس ڈویژن، اسلام آباد میں زیر التواء ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں سے تنخواہوں اور سہولیات میں اضافہ نہ ہونے سے بہت سے چھوٹے ملازمین مقروض ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ای او بی آئی کی دیگر سرکاری محکموں سے آئی ہوئی ڈیپوٹیشن پر تعینات بے، بےحس اور ظالم انتظامیہ اور طاقت ور افسران خود اپنے لئے 2017ء کے نظر ثانی شدہ پے اسکیلوں اور تمام ایڈہاک الاؤنسوں اور دیگر سہولیات کی منظوری دے کر نئی تنخواہوں اور مراعات سے پوری طرح فیضیاب ہو رہے ہیں۔ انتظامیہ کی اس دہری پالیسی اور اس امتیازی سلوک کے باعث ای او بی آئی کے اسٹاف ملازمین سخت احساس محرومی اور غم و غصہ میں مبتلا ہیں۔

او بی آئی میں بڑے پیمانے پر دیگر سرکاری محکموں سے خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے افسران اور او پی ایس افسران نہایت کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں۔ جن کی تعیناتی سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔

ای او بی آئی سے رجسٹرڈ محنت کشوں کی کل تعداد

اس وقت ملک کی لیبر فورس کی کل تعداد 57.2 ملین بتائی جاتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ای او بی آئی کی نااہل اور سفارشی افسر شاہی انتظامیہ نے 1976ء میں اپنے قیام سے اب تک ملک بھر میں صرف 133,633 آجران /اداروں اور ان کے تقریبا 90 لاکھ ملازمین کو رجسٹرڈ کیا ہے۔ ان میں سے بیچ میں 42,391 ادارے بند ہو چکے ہیں اور 4,024 ادارے ڈی رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر کے صرف87,207 آجران اور ادارے ہی موجودہ کم از کم اجرت کے بجائے اپنی من مانی شرح سے ای او بی آئی کو کنٹری بیوشن ادا کر رہے ہیں۔ جو ای او بی آئی کی نااہل افسر شاہی انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح ای او بی آئی نے اپنی مخصوص پالیسی کے تحت اپنی توجہ صرف بڑے شہروں میں قائم روائتی صنعتی، کاروباری اور تجارتی اور دیگر اداروں پر مرکوز کر رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے چھوٹے کاروبار، زراعت، ماہی گیری، روڈ ٹرانسپورٹ اور گڈز ٹرانسپورٹ پر مشتمل اداروں کی عدم رجسٹریشن کے باعث ان اہم شعبوں کے ملازمین آج بھی ای او بی آئی میں رجسٹریشن اور پنشن کی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ صورت حال ای او بی آئی میں افسران کی زبردست بہتات اور ادارہ کے قیام کے مقاصد اور کارکردگی پر زبردست سوالیہ نشان ہے۔

ای ا و بی آئی میں کیڈر افسران کی بدانتظامی

ای او بی آئی میں بااثر افسران کو نوازنے کے لئے آفس کیڈر، آپریشنز کیڈر، فنانس کیڈر، لاء کیڈر ، انوسٹمنٹ کیڈر اور آئی ٹی کیڈر تشکیل دیئے گئے تھے ۔ جس کے بعد ان افسران نے اپنی رضا مندی سے اپنی پسند کے Cadres میں شمولیت اختیار کر لی تھی، لیکن جب جلد از جلد ترقیاں نہیں ہوئیں  تو کیڈر یافتہ افسران نے ایک بار پھر بھاری سفارشوں اور اعلیٰ افسران کو بھاری نذرانے پیش کر کے خلاف ضابطہ طور پر یا تو اپنے کیڈر تبدیل کرا لئے یا پھر دوسرے کیڈرز میں اپنی پوسٹنگ کرانے میں کامیاب ہو گئے ۔

اس وقت ادارہ میں بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ آفس کیڈر کے افسران آپریشنز کیڈر میں، آپریشنز کیڈر کے افسران آفس اور انوسٹمنٹ کیڈر میں، فنانس کیڈر کے افسران آفس کیڈر میں، آفس کیڈر کے افسران فنانس کیڈر میں ، آئی ٹی کیڈر کے افسران آپریشنز کیڈر میں اور لاء کیڈر کے افسران آپریشنز اور آفس کیڈر میں اور آفس کیڈر کے افسران لاء کیڈر میں تعینات ہیں ۔ جس کے باعث ماضی میں بورڈ آف ٹرسٹیز کی ساز باز سے مخصوص اور پسندیدہ افسران کی شارٹ کٹ طریقہ سے ترقیوں کے لئے متعارف کرایا جانے والا Cadre System بالکل تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے اور ای او بی آئی کے افسران میں کیڈر کے معاملہ میں سخت چپقلش پیدا ہو گئی ہے ۔

اسی طرح ماضی میں ادارہ کے بعض اعلیٰ افسران اور بورڈ کی ملی بھگت سے بعض منظور نظر اور با اثر افسران کے لئے ادارہ کی مقررہ سینیاریٹی فہرست کو نظر انداز کر کے MBA کی ڈگری کی بنیاد پر شارٹ کٹ ترقیوں کے خصوصی مواقع بھی فراہم کئے گئے تھے ۔ای او بی آئی کے افسران بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلہ کے مطابق متعین کردہ مضامین میں ریگولر MBA کرنے کے بجائے ایک غیر معروف تعلیمی ادارہ پریسٹن یونیورسٹی کراچی میں ہفتہ اور اتوار کی کلاسز کے ذریعہ E-MBA کی ڈگریوں اور اس وقت کی انتظامیہ اور اعلیٰ عدلیہ کو گمراہ کرتے ہوئے اور ادارہ کے سینئر افسران کو بائی پاس کرتے ہوئے ایگزیکٹیو افسر کے چھوٹے عہدوں سے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کے کلیدی عہدوں تک پہنچ گیا تھا ۔

سابق اور اصول پرست چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے ان افسران کے عہدوں میں تنزلی اور پچھلے 15 برسوں میں خلاف قانون حاصل کی گئی تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی کی سزا دے تھی ۔ چیئرمین خاقان مرتضیٰ کے جانے کے بعد طاہر صدیق المعروف طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹرایچ آر ڈپارٹمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ سزا یافتہ افسران غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعہ اپنے عہدوں میں تنزلی کی سزا کے تحت اپنی تنخواہوں اور مراعات کی کٹوتی رکوانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں ۔ ان افسران میں آصف خان، سید وقار احمد زیدی اور علی مراد سپیو وغیرہ ماضی میں ایگزیکٹیو افسر کے عہدہ کے ٹیسٹ میں بھی فیل ہو گئے تھے۔ لیکن اس دور کے بعض مہربان اعلیٰ افسران نے بھاری نذرانوں اور Give & Take کے ذریعہ انہیں اس ٹیسٹ میں پاس کرا دیا تھا۔ بعد ازاں کئی افسران نے ادارہ کے اعلیٰ افسران کو مبینہ طور پر بھاری نذرانے پیش کر کے فیلڈ آپریشنز کے منفعت بخش عہدوں پر اپنی پوسٹنگ کرا لی تھیں۔ جہاں وہ ایک طویل عرصہ سے تعینات ہیں۔

ای او بی آئی انتظامیہ کے بااثر فیلڈ افسران محنت کشوں کی رجسٹریشن اور کنٹری بیوشن کی وصولی کے نام پر EOB Act.1976 سے لاعلم فیکٹری مالکان اور آجران اور اداروں کو بھاری جرمانوں اوران کی فیکٹریوں کو سیل کرنے کی دھمکیوں سے ڈرا دھمکا کر اور ان سے کنٹری بیوشن کی رقوم میں جوڑ توڑ کے ذریعہ اب لکھ پتی اور کروڑ پتی بزنس مین بن گئے ہیں۔ادارہ کے ایک ریٹائرڈ فیلڈ افسر کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی فیلڈ آپریشنز کرپشن کا گڑھ ہے۔ جہاں کرپشن کے بڑے بڑے مگر مچھ موجود ہیں لیکن ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فیکٹریوں اور دیگر صنعتی اور کاروباری اداروں سے وصول ہونے والے Contribution کے تین حصہ کئے جاتے ہیں۔ جس کا ایک حصہ فیلڈ افسر اپنا حق سمجھ کر خود کھاتا ہے، دوسرا ریجنل ہیڈ اور ڈپٹی ریجنل ہیڈ کو اور تیسرا حصہ ہیڈ آفس اور ڈائریکٹر جنرل آپریشنز تک تقسیم کیا جاتا جاتا ہے۔ ای او بی آئی فیلڈ آپریشنز کے افسران بھاری اثاثوں، پوش علاقوں میں بنگلے، اپارٹمنٹس، اندرون و بیرون ملک کاروبار، رئیل اسٹیٹ بزنس، شادی ہالوں، کیٹل فارمز ، ڈیری فارمز، فارم ہاؤسز ، پٹرول پمپوں، زرعی اراضیوں کے مالک اور بزنس مین بن گئے ہیں ۔

اان میں سے قابل ذکر ایک افسر سید وقار احمد زیدی، ڈپٹی دائریکٹر ہے جو کراچی میں رئیل اسٹیٹ کا کنگ کہلاتا ہے ۔ جس نے ملیر کینٹ، کراچی کے مہنگے ترین علاقہ میں میں اپنا محل نما گھر بھی تعمیر کر رکھا ہے ۔

ای او بی آئی میں گروپس

ای او بی آئی میں افسران نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مختلف طاقتور اور منظم گروپ بنائے ہوئے ہیں ۔ ان میں 1995ء میں بھرتی ہونے والے افسران کا گروپ ، 2007ء کے پروبیشنری افسران کا گروپ ، 2007ء کے بیچ کے محمد نعیم شوکت قائم خانی گروپ اور 2014ء میں بھرتی ہونے والے طاہر صدیق کا گروپ شامل ہیں ۔

دستاویزات کے مطابق ان افسران نے غریب محنت کشوں کی پنشن کے ادارہ ای او بی آئی سے لوٹی ہوئی بھاری دولت کے بل پر نامور وکلاء کو بھاری فیسوں کے ذریعہ ناصرف ای او بی آئی بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بھی مختلف عدالتوں میں کئی کیسز دائر کئے ہوئے ہیں ۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے لاء ڈپارٹمنٹ کا قیمتی وقت، فلاحی ادارہ کا پیسہ اور وسائل مثبت اور تعمیری کاموں کے بجائے انہی بدعنوان اور بااثر افسران کے کیسوں کو بھگتنے میں ضائع ہو رہے ہیں۔ اندھیر نگری کا یہ عالم ہے کہ ان بدعنوان افسران کے بعض کیسوں میں تو ای او بی آئی کی انتظامیہ ان بااثر افسران کو ادارہ کی جانب سے جملہ سہولیات اور بھاری ٹی اے ڈی اے بھی ادا کرتی رہی ہے ۔

ای او بی آئی کے اسٹاف ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر  FIA اور NAB ای او بی آئی کے فیلڈ آپریشنز اور ان طاقتور گروپس کے ان تمام کرپٹ ترین اور مفاد پرست افسران کے اثاثوں، املاک اور بینک اکاؤنٹس، بیرون ملک سفر کی مکمل تحقیقات کریں تو اس ضمن میں نا صرف نہایت سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے بلکہ اس ادارہ کے بہت سے نام نہاد معزز افسران کے چہرے بھی بے نقاب ہو جائیں گے۔

2007 اور 2014 میں بھرتی افسران کی نوکری خطے میں

سال 2007ء اور 2014ء میں بھی ادارہ میں انتظامیہ کی مصلحت آمیز پالیسی کے ذریعہ صوبائی کوٹہ کی خلاف ورزیوں، سفارشوں، غیر قانونی طریقہ کار اختیار کر کے، بلا کسی تجربہ اور انٹرویو بھرتی ہونے والے افسران کے گروپ کو ای او بی آئی میں بھرتی کیا گیا ۔ ان مفاد پرست افسران نے بھی اگست 2020ء میں ادارہ میں 25 اور 30 برسوں سے ملازمت کرنے والے سینئر اور تجربہ کار ملازمین کو یکسر نظر انداز کر کے اور ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشن مجریہ 1980ء کے تحت ترقیوں کے لئے مقررہ سنیاریٹی کے بجائے شارٹ کٹ کے ذریعہ اپنی ترقیاں حاصل کرنے کے لئے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے لاکھوں روپے کے اخراجات پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منجمنٹ (PIM) کراچی کی ملی بھگت سے نام نہاد آن ٹریننگ کورسوں کا کھیل رچایا اور ان ٹریننگ کورسوں میں نامزدگی کے لئے طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹریننگ سیکشن HRD کو بھاری نذرانے اور فرمائشی تحفے بھی پیش کئے جاتے رہے ہیں ۔

بتایا جاتا ہے کہ بدنام زمانہ افسر مبشر رسول، ریجنل ہیڈ بن قاسم (فیصل آباد کرپشن کیس میں ملوث) نے ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقی پانے اور PIM کے آن ٹریننگ کورس میں اپنی نامزدگی کرانے کے لئے HR افسر طاہر صدیق کومبینہ طور پر نئی CD-70 موٹر سائیکل تحفہ میں پیش کی ہے ۔ اس آن لائن ٹریننگ کورس میں طاہر صدیق AD کے نا پسندیدہ افسران جن میں ادارہ کے سینئر افسر عبدالقادر سومرو، ڈپٹی ڈائریکٹر، عبدالحمید پنہور اسسٹنٹ ڈائریکٹر، فدا حسین مغیری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، مختار علی، ایگزیکٹیو افسر اور دیگر افسران شامل ہیں، ان کو PIM کے عملہ کی ساز باز سے آن لائن ٹریننگ کورس میں کامیاب ہونے کے باوجود زبردستی فیل کرا کے ان کی جائز ترقیوں پر حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ لہذاء ای او بی آئی کے اس آن لائن ٹریننگ اسکینڈل کی فوری تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

ای او بی آئی کے شعبہ قانون میں لاقانونیت

سابق چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید کی جانب سے نان کیڈر، جونیئر افسر طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو بچانے کے لئے خود ساختہ اور من گھڑت الزامات کے تحت ادارہ کے ایک سینئر افسر عبدالاحد میمن، قائم مقام ڈائریکٹر لاء ڈپارٹمنٹ کو صرف اس جائز بات پر ملازمت سے معطل کر کے شوکاز اور چارج شیٹ جاری کر دی تھی کہ انہوں نے ادارہ کے لاء ڈپارٹمنٹ کے سربراہ اور ادارہ کے افسران کی سینیاریٹی کے تعین اور اعتراضات سننے والی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے 2014ء میں فنانس کیڈر کی سیٹ پر بھرتی ہونے والے جونیئر ترین نان کیڈر افسر طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے نہایت چالاکی سے خلاف ضابطہ طور پر اپنے فنانس کیڈر کو آفس کیڈر میں تبدیل کرانے، صوبائی کوٹہ کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے اور انتظامیہ کی سرپرستی میں ایچ آر ڈپارٹمنٹ جیسے حساس ڈیپارٹمنٹ میں بیک وقت 5 کلیدی عہدوں پر فائز ہو کر اپنے ا ختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف قانون کیڈر کی تبدیلی پر اعتراضات جمع کرانے والے ادارہ کے 1995ء کے افسر مختار علی ، ایگزیکٹیو افسر اور 1987ء سے ادارہ میں ملازم میاں عبدالرشید، اسسٹنٹ ڈائریکٹر لاہور کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں دور افتادہ مقامات پر تبادلے کی دھمکیاں دینے، سینیاریٹی کے معاملہ میں خلاف ضابطہ امور میں ملوث ہونے اور مفادات کے ٹکراؤ کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سازشی جونیئر افسر طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو ایچ آر ڈپارٹمنٹ سے ہٹانے کی سفارش کرنے کی جراءت کیوں کی تھی ۔

عبدالاحد میمن، سربراہ شعبہ قانون کی اس حق گوئی کی پاداش میں چیئرمین اظہر حمید نے اپنے چہیتے ترین افسر طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے خلاف کارروائی کے بجائے الٹا اس کے ذاتی مفادات کا ناجائز تحفظ کرتے ہوئے ادارہ کے اس فرض شناس اور دیانتدار افسر عبدالاحد میمن کے خلاف سخت انتقامی کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا ۔

بتایا جاتا ہے کہ عبدالاحد میمن ای او بی آئی کے ایک تجربہ کار اور ماہر افسر قانون ہیں۔ جو گزشتہ کئی برسوں سے ماتحت عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان تک ای او بی آئی کے اہم کیسوں خصوصا 64 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کی بھی پیروی بھی کرتے رہے ہیں۔ سینئر افسر ہونے کے ناطے انہیں 2019ء میں ای او بی آئی نے اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منجمنٹ ( NIM ) کے مڈکیریئر مینجمنٹ کورس کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا اور کورس کی تکمیل کے بعد لاء کیڈر کے سینئر افسر کی حیثیت سے انہیں اسلام آباد سے کراچی تبادلہ کرکے لاء ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں سربراہ کی حیثیت سے تعینات کیا تھا۔ جہاں انہوں نے مختصر مدت میں محدود وسائل اور افرادی قوت کی قلت کے باوجود تمام زیر التوء ا قانونی امور نمٹانے کے لئے شب و روز محنت کی تھی ۔

ای او بی آئی کےسابق  چیئرمین اظہر حمیدنے اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر ادارہ کے پرانے اور تجربہ کار افسران کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ادارہ کے ایک سینئر اور دیانتدار اور بے گناہ افسر محمد صلاح الدین ، ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس، دیانتدار اور اصول پرست افسر محمد صدیق، ڈپٹی ڈائریکٹر انوسٹمنٹ ڈپارٹمنٹ اور شریف النفس اور بے گناہ افسر محمد نعیم ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آڈٹ کو بھی بینک آف پنجاب کے شیئرز کی خریداری کے ایک دس برس پرانے معاملہ میں ملوث کر کے اور ان کے خلاف من گھڑت الزامات کی چارج شیٹ جاری کر کے ان کی افسران کی جائز ترقیوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ہیں ۔

ادارہ کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے ای او بی آئی میں 2007ء میں صوبائی کوٹہ کی سنگین خلاف ورزی کے تحت بھرتی شدہ افسران کے منظم اور طاقتور گروپ کا راج قائم ہے ۔ جس کا دائرہ اثر منسٹری آفس، اسلام آباد سے لے کر ہیڈ آفس کراچی تک پھیلا ہوا ہے۔منسٹری میں خلاف ضابطہ طور پر تعینات ای او بی آئی کے دو افسران عاصم رشید، سیکشن افسر ILO ( اس کا اصل مقام تعیناتی ڈپٹی ڈائریکٹر ، فنانس ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس کراچی ہے ) اور اسی طرح جبران حسین، سیکشن افسر EOBI ( اس کا اصل مقام تعیناتی اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ریجنل آفس ، حسن ابدال ہے ) یہ دونوں با اثر اور سفارشی افسران منسٹری آفس اسلام آبادمیں بیٹھ کر ای او بی آئی میں اپنے 2007ء اور 2014ء بیچ کے ساتھی افسران کے مفادات کا تحفظ کرنے اور ای او بی آئی کے وسائل کا بلا دریغ استعمال کرنے میں مصروف ہیں، اور اسی طرح گورنمنٹ آڈٹ پیرا کے مطابق 26 نومبر 2018 کو ای او بی آئی میں ملازمت کے لئے کوالیفائڈ امیدوار محمد ریاض کی جگہ خلاف ضابطہ طور پر بھرتی ہونے والا اور ترقیوں پر ترقیاں حاصل کرنے والا افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی، جو بیک وقت تین کلیدی عہدوں ڈائریکٹر کوآرڈینیشن، ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ اور اسٹاف افسر برائے چیئرمین پر فائز ہے اور لا محدود اختیارات کے ساتھ ادارہ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے ۔ کراچی ، لاہور ، اسلام آباد کے بی اینڈ سی آفسوں ، کراچی،لاہور اور اسلام آباد کے ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کے آفسوں اور ملک بھر میں قائم 40 ریجنل آفسوں کے سربراہان اور ریجنل ہیڈز کا تعلق 2007ء میں بھرتی ہونے والے بیچ سے بتایا جاتا ہے ۔

ای او بی آئی میں 2014ء میں NTS کے ذریعہ تحریری ٹیسٹ میں پاس ہونے کے لئے بھاری نذرانے پیش کر کے بلا تجربہ اور انٹرویو کے ذریعہ بھرتی ہونے والے 250 افسران کا بھی آپس میں مکمل گٹھ جوڑ بھی موجود ہے ۔ ان دونوں گروپوں کی نظر میں ادارہ کے پرانے افسران اور اسٹاف ملازمین بری طرح کھٹکتے ہیں اور اس سفارشی ، نان کیڈر اور جونیئر اور با اثر افسران کے ٹولے نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ادارہ کے پرانے افسران اور اسٹاف ملازمین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا کر ان کا جینا محال کر دیا ہے ۔

بوڑھوں کو پنشن کے مسائل کیوں؟

ای او بی آئی کے ریجنل ہیڈز کی جانب سے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ادارہ میں آن لائن سسٹم موجود ہونے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے ان بے سہارا بزرگ ریٹائرڈ ملازمین،معذوروں اور پردہ دار بیواؤں سے پنشن کے لئے غیر ضروری تصدیق شدہ دستاویزات ملازمتی ثبوت، فارم PR-02A، حلف نامے، نکاح نامے، طلب کرنے کے لئے باربار چکر لگوائے جاتے ہیں۔ مقررہ طریقہ کار کے مطابق ای او بی آئی 45 دنوں میں پنشن کی منظوری کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کے باوجود ریجنل آفسوں میں لاپروائی اور جوابدہی نہ ہونے کے باعث کئی کئی برسوں سے بے شمار پنشن کیسز مختلف وجوہات کی بناء پر زیر التواء ہیں لیکن اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے ادارہ کی افسر شاہی انتظامیہ کے ہیڈ آفس اور ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) لاہور کے اعلیٰ افسران اپنی کھال میں مست ہیں۔

اس حوالے سے نمائندہ ایم ایم نیوز نے وزارتِ سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے سیکرٹری محمد ہاشم پوپلزئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا میرے ہوتے ہوئے جو مسائل آئے وہ ہم نے حل کئے اب گذشتہ ہفتے میں ریٹارئرڈ ہو گیا ہوں۔ اس لئے اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اے وی ایل سی کی مختلف علاقوں میں کارروائیاں، 7 ملزمان گرفتار، 3 موٹرسائیکلیں برآمد

Related Posts