علمی تعصب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے والد مولانا محمد عالم رحمہ اللہ کی پیدائش 1935ء کی تھی۔ وہ بارہ برس کی عمر کو پہنچے تو اس خطے میں برٹش راج کا سورج غروب ہورہا تھا اور ہر طرف کامرانی کی پرجوش کیفیت تھی۔

گویا ان کا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی اس عرصے کی تھی جب برطانیہ ہی نہیں اس کی خوبیاں بھی نفرت کی علامت تھیں، کہ آزاد فکر قابض فورس کی خوبیاں بھی پسند نہیں کرسکتی۔ خوبیاں یا خامیاں تو تب پرکھی جاتی ہیں جب کچھ منتخب کرنے کا مرحلہ درپیش ہو۔ قابض کا صرف قابض ہونا ہی اس کا کل تعارف ہوتا ہے۔ اور یہ تعارف صرف یہی تقاضا رکھتا ہے کہ مسترد کر دیجئے۔ انسانی فکر میں اس کے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کا ہی سب سے زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ سو ہمارے والد کی فکر میں انگریزیت سے نفرت ایسی رچی بسی تھی کہ وہ برطانیہ کی دی ہوئی ماڈرن ایجوکیشن کو بھی نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اگر وہ دور ہمیں نصیب ہوا ہوتا تو شاید ہماری سوچ بھی یہی ہوتی۔ لہٰذا جب ہم ان کی سوچ کو ان سیاسی و سماجی حالات میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو اسے غلط ماننے پر خود کو آمادہ نہیں کرپاتے۔

لیکن ہماری پیدائش برطانوی دور کی نہیں۔ ہمارے شعور میں پہلی سیاسی سرگرمی کی یاد “انگریزو! ہندوستان چھوڑو!” کے نعرے کی نہیں بلکہ “گنجے کے سر پر ہل چلے گا ! آج نہیں تو کل چلے گا” کے اس نعرے کی ہے جو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گونج رہا تھا۔ ایسے میں جب وہ وقت آیا کہ ہم خود صاحبِ اولاد ہوئے اور ہمیں اپنی اولاد کے تعلیمی امور کے فیصلے کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو انگریز کی پیچھے چھوڑی ہوئی تعلیم کئی تبدیلیوں سے گزرچکی تھی۔ مثلاً یہی دیکھ لیجئے کہ خود انگریز کے دور میں ہندوستان میں اس تعلیم میں زور علم پر نہیں بلکہ ثقافت پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور نے طب، انجینئرنگ یا ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی بڑا نام پیدا نہیں کیا۔ بلکہ گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے ہمیں شاعروں، ادیبوں یا ثقافتی امور کی شخصیات کا لولی پاپ دیا گیا۔ اور کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ بھئی شاعر تو ہندوستان نے برٹش دور سے قبل کے عرصے میں زیادہ بڑے پیدا کئے ہیں۔ انگریزی دور تو جتنا مضبوط ہوا اتنا ہی مشرقی شاعری پر زوال آیا۔

انگریز رخصت ہوا تو بھٹو دور تک صورتحال یہی رہی کہ جدید تعلیم کے اداروں میں سارا زور “کلچر” کے نام پر لچر پن پر رہا۔ ہمارے کمرشل لبرلز آج بھی اس دور کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں ۔ شہر میں ایسے نائٹ کلب ہوا کرتے تھے جہاں شہر کے معروف لوگ مخلوط ڈانس کیا کرتے تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں یہ لچر پن کنٹرول ہوا اور ساتھ ہی پہلی بار اس بحث کا آغاز ہوا کہ “کیا ہمارا نصاب تعلیم کار آمد ہے؟” یہ ایک زبردست سوال تھا جو قیام پاکستان کے پچاس سال بعد پہلی بار اٹھا۔ اس سوال کی اہمیت یوں بھی مسلم تھی۔ برٹش دور سے لے کر ستر کی دہائی تک صورتحال یہ رہی کہ اگر کسی نے کوئی سپیشلائزیشن کرنی ہے یا اعلیٰ ڈگری حاصل کرنی ہے تو اس کی ایک ہی صورت تھی کہ آپ دیار غیر کا رخ کیجئے۔ چنانچہ اس دور کے ہر شخص کے وزٹنگ کارڈ اور نام کی تختی کے ساتھ جلی حروف میں اس کی حاصل کردہ بڑی ڈگری اور اس ملک کا نام بھی درج ہوتا جہاں سے وہ حاصل کی گئی ہوتی۔ اور یہ ڈگریاں اس حد تک نظریاتی ہوتیں کہ سرخے ان کے حصول کے لئے ماسکو جبکہ مغرب کے دلدادہ آکسفورڈ، ایڈمبرا یا پھر امریکہ کے مختلف شہروں کا رخ کرتے۔ جب ہمارے ہاں یہ سوال اٹھنا شروع ہوا کہ کیا ہمارا نصاب تعلیم کارآمد ہے؟ تو اس کے نتیجے میں مغربیت کے بجائے تعلیم پر توجہ مبذول ہونی شروع ہوئی۔ اور کمال یہ ہے کہ یہ سوال اساتذہ نے نہیں بلکہ طلبہ نے اٹھایا تھا۔

یہ اسی بحث کا نتیجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں پاکستان کی یونیورسٹیوں سے اس پائے کے انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر فنون کے ایسے ماہر نکل رہے ہیں جنہیں خود مغرب کے ادارے ملازمت دینے کو تیار ہیں۔ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں کے پڑھے طلبہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی وغیرہ کے مراحل کے لئے بھی کوالیفائی کرجاتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں رہا کہ وہ سپیشلائزیشن کے لئے ہر حال میں باہر ہی جائیں۔

اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا اب صرف امیروں کا چونچلا ہی بن کر رہ گیا ہے۔ کبھی ہمارے پاس “ایچی سن” ہی ایک حوالہ ہوا کرتا تھا، آج یو ای ٹی، اور کئی دوسرے تعلیمی اداروں کے حوالے ہیں۔ وہ دور گیا جب ماڈرن علوم میں کوئی تیر نہ مارنے کے باوجود پنجاب یونیورسٹی یا گورنمنٹ کالج لاہور ہی کل فخریہ سرمایہ ہوا کرتا تھا۔ اب تو سرکاری یونیورسٹی کا نام سنتے ہی ملٹی نیشنلز کا ایچ آر ڈپارٹمنٹ جاب کے امیدوار کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔

ہمارے والد نے بچپن اور لڑکپن میں انگریز کو بطور قابض قوت کے دیکھا تھا۔ جب ان کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی تو ماڈرن ایجوکیشن اسی قابض فورس کی یادگار تھی اور اس کے تعلیمی اداروں میں زور بھی تعلیم کے بجائے کسی اور چیز پر تھا، سو ان کے پاس واحد آپشن یہی تھی کہ بچوں کو مدرسے میں داخل کرکے عالم دین بنادیں۔ ہمارا دور آیا تو کچھ اور قسم کی تعلیم غالب آرہی تھی، نتیجہ یہ کہ اسی خاندان میں ماڈرن علوم کا پہلا فاضل انجینئرنگ کے شعبے میں سامنے آگیا۔ یہ صرف ایک دروازہ ہے جو درجنوں مولویوں کے اس خاندان میں کھلا۔ آج بھی اس خاندان کے کئی بچے اپنے شوق سے عالم دین بن رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان بچوں کی بھی کمی نہیں جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے شعبوں میں پیش رفت کرتے ہوئے آنے والے سالوں میں سامنے آنے کو ہیں۔ اگرچہ باہر کی فضا یہ ہے کہ مولوی یونیورسٹیز سے پڑھے ہوؤں کو گمراہ اور یونیورسٹیز سے پڑھے ہوئے مولویوں کو دقیانوس سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارے بچوں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ ہمارے جو بچے مدارس میں پڑھ رہے ہیں وہ ہمارے کالج والے بچوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی ہمارے سکول کالج والے بچے ہمارے مدرسے والے بچوں کے متعلق کوئی گھٹیا خیال دل میں لاتے ہیں۔

علم مدرسے کا ہو خواہ کالج کا، ہوتا علم ہی ہے۔ بھلا علم بھی کبھی نفرت اور تحقیر کے جذبات پیدا کرتا ہے؟ کیا ان لوگوں کو “اہل علم” کہا جاسکتا ہے جو محض اپنے شعبہ تعلیم کی بنیاد پر بھی تعصب کا شکار ہوجاتے ہوں؟ دعویٰ صاحب علم ہونے کا ہو اور دل علم کی ہی بنیاد پر بنے تعصب سے بھرا ہو، اس سے بڑھ کر سنگین صورتحال کوئی ہو نہیں سکتی۔اس غلاظت سے دل کو صاف کیجے ورنہ اس کے ہوتے خیالات ہمیشہ بدبودار ہی رہیں گے !

Related Posts