قطعاً نہیں، اللہ کا دین جمالیات سے کیسے خالی ہوسکتا ہے ؟اس کی تو کتاب میں ہی جمالیات کی ایسی لامتناہی کائنات پھیلی ہے کہ وہ کل جہاں کے بنی آدم کو عجمی یعنی گونگا کہنے والے فصحائے عرب کو چیلنج دے کر کہتا ہے کہ لاؤ ذرا ہماری آیات کی ہمسر کوئی ایک آیت بنا کر لاؤ۔
یہ چیلنج علم کا ہے کہ قرانی احکام جیسا کوئی حکم بنا کر دکھاؤ ؟ نہیں۔ یہ جمالیات کا چیلنج ہے کہ ہماری آیات جیسا کلامی حسن جلوہ گر کر کے دکھایئے۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ تمہاری زبان دانی اور فصاحت کہاں کھڑی ہے ؟ اب یہاں ایک کمال اور ہے جس کی طرف ہمارے علم کے مطابق آج تک کسی کی توجہ نہیں جاسکی۔
وہ یہ کہ قرآن کے نزول سے قبل فصاحت و بلاغت کا عروج السبع المعلقات تھے۔ عرب شعراء کے وہ سات کلام جو خانہ کعبہ کی زینت بنائے گئے تھے۔ قرآن جیسی ایک آیت کے خدائی چیلنج کا اثر دیکھئے کہ عرب قرآن چھوڑیئے السبع المعلقات سے بھی بڑا کلام نہ کہہ پائے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اللہ سبحانہ و تعالی انہیں دکھانا چاہ رہے تھے کہ ہمارا کلام چھوڑو تم اب اپنے ہی انسانی کلام کو بھی السبع المعلقات سے بہتر نہ کر پاؤگے۔
دین کی نسبت سے جمالیات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ بات سمجھ لی جائے کہ جمالیات دو طرح کی ہیں۔ ایک ظاہری جمالیات اور دوسرا باطنی جمالیات۔
دونوں کا فرق کلامی جمالیات کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ کلام کی تخلیقی فصاحت و بلاغت و ہنرمندی اس کا ظاہری حسن ہے۔ جبکہ کلام کے معنی میں گہرائی اور بڑی بات اس کا باطنی حسن ہے۔ اسی طرح حکم کی ظاہری ساخت اس کی ظاہری جمالیات ہے۔ جبکہ حکم میں مخفی حکمت اس کا باطنی جمال ہے۔ اللہ کے دین میں یہ دونوں موجود ہیں۔ ایک مثال لیجئے
پانچ نمازیں ہیں۔ دو سائیلنٹ 3 جہری۔ جہری اس نماز کو کہتے ہیں جس میں امام بہ آواز بلند قرات کرتا ہے۔ دو سائیلنٹ نمازیں بھی اتنی ہی پاور کے ساتھ فرض ہیں جو پاور جہری نمازوں کی ہے۔ تو پانچوں سائیلنٹ کیوں نہیں ؟ یا یہ کہ تین سائیلنٹ دو جہری کیوں نہیں ؟ اب دیکھئے کمال۔
تین جہری نمازیں صوتی جمالیات کا اظہار ہیں۔ دو سائیلنٹ نمازیں نہ ہوتیں تو تین جہری نمازوں کی صوتی جمالیات سمجھ آتی ؟ اور ذرا غور کیجئے کہ سائیلنٹ نمازیں کونسی ہیں ؟ وہ دو نمازیں سائیلنٹ ہیں جو ڈیوٹی ٹائم میں ہیں۔ آپ ڈیوٹی ٹائم میں کنسرٹ میں جاتے ہیں ؟ سارے ہی کنسرٹ چھٹی ٹائم میں ہوتے ہیں کہ نہیں ؟ کیوں ؟
کیونکہ ڈیوٹی ٹائم میں انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی اور کار بار کو متاثر کرتی ہے۔ سو اللہ نے ڈیوٹی ٹائم والی دونوں نمازیں صوتی جمال سے خالی رکھیں۔ کہ بس نماز پڑھئے اور کام پر لوٹیئے، یہ انٹرٹینمنٹ کا وقت نہیں۔ لیکن جمعے کے روز وہ حکم دیا کہ کاروبار بند کرو اور جمعے کے لئے آؤ، تو جب کاروبار بند کرنے کا حکم دیدیا تو اب دن کی نماز میں بھی صوتی جمالیات آگئی۔ نماز جمعہ کی قرآت اسی لئے جہری ہے۔جب کاروبار سے چھٹی کرائی تو جمالیات بھی رکھ دی۔
ذرا غور کیجئے، جماعت کے صوتی جمال سے انٹرٹین وہ آپ کو کب کر رہا ہے ؟ صبح جب دن کا آغاز ہوا۔ اس نے آپ کا دن شروع ہی انٹرٹینمنٹ سے کردیا۔ طبیعت ایک دم تر و تازہ ہوگئی۔
شام کو تھک کر گھر لوٹے تو اب دو مزید بار صوتی انٹرٹینمنٹ شامل کردی۔ رہا یہ سوال کہ دو نمازیں سائیلنٹ اور تین جہری کیوں ؟ اس کے برعکس کیوں نہیں ؟ بہت سمپل وجہ ہے۔ وہ میسج دے رہا ہے جمالیات کی مقدار غالت رہے گی تو بات بنے گی۔ جمال کم نہیں ہونا چاہئے۔
یہ تو ہوئی نماز کی ظاہری جمالیات۔ اب باطنی جمالیات دیکھئے۔ نماز کا باطنی جمال خشوع خضوع میں چھپا ہے۔ جب یہ ہوگا تو پھر نماز یہ کرامت ظاہر کرکے دکھا دے گی کہ فواحش و منکرات سے طبیعت ہی بیزار ہوجائے گی۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ پاکیزگی میں طبیعت پاکیزگی ہی کی جانب میلان رکھتی ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف صورت میں طبعی رجحان گناہوں کی جانب ہوجاتا ہے۔
اب ذرا ہماری کمبختی دیکھئے !کیا ہم اور آپ نماز کی صوتی جمالیات کا لطف لے پا رہے ہیں ؟ اگر جمالیاتی شعور میسر بھی ہو تو نہیں لے سکتے۔ کیونکہ ہم وہ احمق ہیں جنہوں نے فقہ کا یہ اصول ہی چولہے میں جھونک رکھا ہے کہ امامت وہ کرے گا جو قاری اچھا ہو، نہ کہ وہ جو عالم اچھا ہو۔ نتیجہ یہ کہ اکثر مساجد میں ایسی منحوس آوازوں والے امام ہیں کہ خدا کی پناہ۔ معاف کرنا بھائی، ہمارا امام تو پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، گلگتی، اور چترالی میں قرات کر رہا ہے۔
شرم کی بات یہ ہے کہ اسے روایتی طور پر قرات بھی کہنا پڑتا ہے۔ اور یہی منحوس آواز والا امام منبر پر چڑھ کر پوچھتا ہے، لوگ نماز میں غفلت کیوں کرتے ہیں ؟ مولوی صاحب آپ ! آپ ہیں اس کا سبب۔ آپ مسجد خالی کردیجئے، اور کمیٹی کوئی صوتی جمالیات والا امام لے آئے۔ پھر دیکھئے کہ نمازی بڑھتے ہیں یا نہیں۔
ایک مبنی بر حقیقت لطیفہ سنئے۔ ہمارے چھوٹے بھائی اپنے ایک امام مسجد دوست سے ملاقات کے لئے گئے تو کچھ دیر میں ان کی مسجد میں اذان ہوگئی۔ اذان ختم ہوئی تو ہمارے بھائی نے اپنے امام مسجد دوست سے پوچھا
“تم ایسی کریہہ آواز والی اذان پر جماعت کراؤگے ؟”
امام صاحب نے مسکرا کر اثبات میں جواب دیدیا۔ مگر جب جماعت شروع ہوئی تو ہمارے بھائی کو لگ پتہ گیا۔ چنانچہ جب نماز ختم ہوئی تو ہمارے بھائی نے مؤذن کو پاس بلا کر پوچھا
“تم اتنی بری آواز میں قرآن پڑھنے والے امام کے لئے اذانیں دیتے ہو ؟”
صوتی جمالیات کا مقتدی پر کیا اثر ہوتا ہے۔ یہ ہم آپ کو اپنی مثال سے سمجھاتے ہیں۔ ہم جامعہ بنوریہ میں طالب علم تھے۔ عمر یہی سولہ سترہ برس رہی ہوگی۔ اس زمانے میں ہم ہر دوسرے دن اس جرم میں پٹتے کہ فجر کیوں نہیں پڑھی ؟ اور ہم نے صبح کی میٹھی نیند کے لئے مار کی قیمت قبول کرلی تھی کہ پٹ لیا کریں گے مگر نیند کا مزہ نہ چھوڑیں گے۔
ایک دن اعلان ہوگیا کہ استاد محترم مفتی فیاض الرحیم فیصل (رحمہ اللہ) آج سے مدرسہ کی مسجد میں امامت کے فرائش انجام دیں گے۔ ہم نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہ کی۔ لیکن جب اسی دن مغرب اور عشاء میں مفتی صاحب کی قرات سنی تو بخدا منجمد ہوکر رہ گئے۔ ایسا لگا قرآن پڑھا نہیں جا رہا بلکہ نازل ہو رہا ہے۔ عشاءسے فارغ ہوتے ہی ہم نے اپنے روم فیلوز میں سے دو سے کہا
“یار ہم کو فجر میں ضرور جگانا، اور دیکھ ! اگر ہماری پھر سے آنکھ لگ جائے تو بیشک پانی کا گلاس ہم پر الٹ دینا مگر جگانا ضرور”
چنانچہ ڈیڑھ سال مفتی صاحب کی امامت کے، اور اس کے بعد ڈھائی سال استاد محترم قاری غلام رسول صاحب کی امامت کے ایسے تھے جب ہم نے فجر چھوٹنے پر کوئی مار نہیں کھائی۔ کیوں ؟ کیونکہ امامت وہ کر رہے تھے جن کی قرآت سننے سے محرومی پر طبیعت آمادہ ہی نہ ہوتی تھی۔تو ثابت کیا ہوا ؟ یہ کہ صرف حکم نماز کافی نہیں جمالیات کا بندوبست بھی ضروری ہے۔
سو ہمارا آپ کو ہمدردانہ مشورہ ہے کہ اگر آپ کی مسجد میں کوئی ایسا امام ہے جو صوتی جمالیات سے عاری ہے تو پہلی فرصت میں اسے نکال باہر کیجئے۔ یہ شخص نماز میں رکھی گئی خدائی جمالیات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس رکاوٹ کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟حکمت الہی پر سمجھوتہ کیسے ہوسکتا ہے ؟
جمالیات کے معاملے میں مولوی کا مسئلہ صرف نماز تک ہے کہاں؟ یہ تو ہے ہی جمالیات کا دشمن۔ آپ نے کبھی مولویوں کی شادی میں شرکت کی ہے ؟ ہم بتاتے ہیں آپ کو کہ مولویوں کی شادی کیسے انجام پاتی ہے۔ یہ خطبہ پڑھ کر ایجاب و قبول کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد چھوارے بانٹ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیدیتے ہیں۔ اور اپنے اپنے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ دو دن بعد ایک ہال میں جمع ہوکر روٹی کھا لیتے ہیں۔
بس ہوگئی شادی۔ آج کل ان میں سے کچھ ایکسٹرا ذہین یہ کرنے لگے ہیں کہ نکاح یا ولیمے میں تقریر بھی کر لیتے ہیں۔ ارے یار ہم آپ کی جمعہ والی تقریر سننے نہیں آتے، وہ بھی آپ کو خالی مسجد میں دس بارہ بابوں کے سامنے کرنی پڑتی ہے۔ اور آپ اب شادی میں بھی وعظ لے آئے ؟ آپ کو یہ خوش فہمی کیوں لاحق ہے کہ تقریر اور وہ بھی آپ کی بے نور تقریر شادی کا لطف دوبالا کردیتی ہے ؟
اگر شادیاں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی یہ مولوی کرتے ہیں تو پھر ایک شادی میں پہنچ کر اللہ کے رسول ﷺ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ کیوں پوچھا تھا
“عائشہ دلہن کے لئے کوئی گیت وغیرہ بھی گائے کہ نہیں ؟”
جب دین کی ظاہری جمالیات کا ہی مولوی صاحب نے اس حد تک بیڑہ غرق کر رکھا ہے تو یہ اس کے باطنی جمال کو خاک پیش فرمائیں گے ؟اور پھر اوپر سے تکبر کا یہ عالم ہے کہ خود کو مقدس بھی سمجھتے ہیں۔ یار آپ تو سرے سے نارمل آدمی ہی نہیں ہیں تو مقدس کہاں سے ہوگئے ؟ بچوں کی ٹنڈ کراکر انہیں نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں اور آپ مقدس ہیں ؟ سر کے بالوں کا حکم کب سے زیر ناف بالوں والا ہوگیا ؟ جمالیات سے اتنی دشمنی ؟ (جاری ہے)