وزارت مذہبی امور نے جعلی مقالہ نگار خاتون کو بچانے کیلئے انکوائری نمٹادی، مبہم رپورٹ جاری

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Ministry of Religious Affairs blacklists Asiya Ikram

اسلام آباد : وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے ڈاکٹر عامر طاسین کا مقالہ بعنوان “ریاست مدینہ اور اسلامی فلاحی مملکت کا تصور” اصل اور درست قرار دیدیا، انکوائری کمیٹی نے حقائق سے پردہ اٹھاکر جعلی مقالہ نگار آسیہ اکرام کو بلیک لسٹ قرار دیتے ہوئے وزارت کے عملے کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کردی۔

تفصیلات کے مطابق معروف محقق اسکالر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے رکن، مجلس علمی فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر طاسین نے مارچ 2021 کو وفاقی وزیر مذہبی امور پیر ڈاکٹر نور الحق قادری اور سیکریٹری مذہبی امور کے نام خط لکھ کر انہیں اپنا مقالہ چوری ہونے اور وزارت کی جانب سے شائع کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیر مذہبی امور پیر ڈاکٹر نور الحق قادری کی ہدایات پر سیکریٹری مذہبی امور نے 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ۔

انکوائری کمیٹی کے انچارج جوائنٹ سیکریٹری حج عالمگیر احمد خان نے تین میں تمام معاملات کی چھان بین کی اور تفصیلی رپورٹ مرتب کرکے سیکریٹری مذہبی امور کو پہنچا دی۔

واضح رہے کہ وزارت مذہبی امور کے متعلقہ شعبہ تحقیق میں عملے کی ملی بھگت سے ڈاکٹر عامر طاسین کا تحریر کردہ مقالہ غائب کیا گیا اس کے بعد اسی مقالہ پر خواتین کیٹیگری میں آسیہ اکرام نامی خاتون کو سیرت ایوارڈ مل گیا۔

اس کے بعد وزارت مذہبی امور کا شائع کردہ سالانہ مقالہ سیرت 2019 میں ڈاکٹر عامر طاسین کا مقالہ آسیہ اکرام کے بھی نام سے شائع کر دیا گیاجس پر ڈاکٹر عامر طاسین نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات اور آسیہ اکرام کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

ڈاکٹر عامر طاسین نے وفاقی سیکریٹری مذہبی امور کو دو خطوط لکھے جس میں استدعا کی کہ انہیں تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق آگاہی دی جائے۔ وزارت کی مسلسل تاخیر کے باعث بالآخر وزارت مذہبی امور کے سیکریٹری مذہبی امور کی ہدایت پر مورخہ 5 نومبر 2021 کو ڈاکٹر عامر طاسین کو انکوائری رپورٹ سے متعلق خط نمبرF.3(1)2019-20/DD(S) کا جواب ارسال کیا گیا ۔

خط کے مطابق ڈاکٹر عامر طاسین ہی کا مقالہ درست اور اصل قرار دے کر جعلساز آسیہ اکرام اور وزارت مذہبی امورکے ان ذمہ داران کے خلاف بھی دفتری ضابطہ کے مطابق کارروائی عمل میں لانے کا بتایا گیا ہے۔

وزارت کے قریبی ذرائع کے مطابق انکوائری رپورٹ میں یہ واضح ہے کہ متعلقہ شعبہ تحقیق و مراجع میں شدید نا اہلی اور کمزوری کی سبب جان بوجھ کر کسی فرد نے ڈاکٹر عامر طاسین کا ارسال کردہ مقالہ پہلے ریکارڈ سے غائب کیا اور اس کے بعد آسیہ اکرام نامی خاتون کے نام سے ریکارڈ میں جمع کرادیا گیا۔

اس معاملے میں شعبہ کے ڈی جی مشاہد حسین یقیناً لاعلم رہے اور اس کے بعد شعبہ ہی کے کسی رکن نے آسیہ اکرام کانام ججز کمیٹی کو بھجوایا اور ڈاکٹر عامر طاسین ہی کے مقالہ پر قومی سیرت کانفرنس میں انعام بھی دلوادیا۔

رپورٹ کے مطابق ضابطہ کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے دونوں مقالہ نگار ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کو انکوائری کمیٹی نے سوال نامہ پر مشتمل خط ارسال کیے اور مقالہ ارسال کرنے کے دستاویزی ثبوت بھی مانگے۔

ڈاکٹر عامر طاسین نے تمام سوالوں کے جوابات کے ساتھ دستاویزی ثبوت اور ای میل کا ریکارڈ بھی کمیٹی کوبھیجا جبکہ گمنام خاتون آسیہ اکرام کے پتہ پر تین مرتبہ خطوط لکھے گئے جوکہ واپس آگئے اور معلوم ہوا جو کہ مقالہ کے پہلے صفحہ پر جو پتہ درج تھا وہ جعلی ہے ۔

اسی طرح وزارت مذہبی امور کا ایک نمائندہ بھی اُس پتہ پر پہنچا اور مزید تصدیق کی لیکن وہاں اس نام کی کوئی خاتون نہیں رہتی ہے۔ جو فون نمبر درج تھا وہ بھی مسلسل بند آ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق آسیہ اکرام کے مقالہ کا دفتری ریکارڈ پر کوئی اندارج نہیں اور نہ ہی اس کے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل کی کوئی نقل مل سکی ہے جس پر تحقیقاتی کمیٹی نے حیرانگی کا اظہار کیا اوراس معاملے کو باقاعدہ منظم کارروائی قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب تحقیقاتی کمیٹی کے رکن نے خاتون آسیہ اکرام کے فون نمبر پر پہلی مرتبہ رابطہ کیا تو اُن سے بات ہوئی اور اُن سے تفصیلات بھی طلب کیں لیکن اُس کے بعد سے وہ نمبر مستقل بند ہوگیا اور پتہ بھی جعلی نکلا ہے۔

انکوائری کمیٹی رپورٹ کے مطابق تمام جزیات کی تحقیقات سے یہی نتیجہ نکلا ہے کہ محقق اسکالر ڈاکٹر عامر طاسین کا مقالہ ہی اصل تھا اور دفتری عملے نے جان بوجھ کر پہلے مرحلے میں مقالہ غائب کیا،اس کے بعد اسکروٹنی کمیٹی سے پاس ہو کر ججز کو ارسا ل کیا گیا اور آخر میں انعام کی حقدار ٹھہرا کر مقالہ شائع بھی کروایا گیا جو کہ اپنے ہی بنائے ہوئے طریقہ کار میں کمزور ثابت ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:وازرت مذہبی امور سیرت کانفرنس کےشان شایا ن انتظامات نہ کر سکی

وزارت کے ذرائع سے معلوم یہ ہوا کہ 15صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکوائری کمیٹی نے متعلقہ شعبہ میں پیش آنے والے واقعہ کے علاوہ مقالہ جات کے طریقہ کارکی وصولی اور دیگر تمام مراحل کو نقائص اور کمزروریوں سے نشاندہی بھی کی اور چند اہم تجاویز بھی پیش کیں ہیں ۔

رپورٹ کے تیسرے حصے میں ڈاکٹر عامر طاسین کے ریکارڈ پروفائل دیکھتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ پاکستان کے معروف علمی خانوادے کے فرد ہونے کے علاوہ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اہم موضوعات پر بے شمار مقالاجات تحریر کیے ہیں اور حالیہ 2021 کی سیرت کانفرنس میں بھی انہیں قومی سیرت ایوارڈ اور سند امتیاز سے نوازا گیا ہے اور ان کا شمار محقق اور سیرت نگاروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔

2019 میں ڈاکٹر عامر طاسین کا جو مقالہ آسیہ اکرام نامی خاتون کے نام سے جان بوجھ کر شائع ہوا ، اس انکوائری رپورٹ کے مطابق آسیہ اکرام نامی خاتون کو ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ بھی قرار تو دے دیا مگر انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے تین ماہ گزر جانے کے بعد کسی کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق متعلقہ شعبہ کے ڈی جی مشاہد حسین نے اپنے عملہ کی کو تاہی کو تسلیم کیا ہے ۔دوسری جانب اسی شعبہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لائی گئی ہے اورنئے سرے سے تمام مراحل کو مرتب کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کمیٹی کے انچارج نے 5 صفحات پر مشتمل شعبہ تحقیق و مراجع کے ان تمام غیر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی کی بھی سفارش کی تھی لیکن بعد میں سینئر آفیسرز کے کہنے پر وہ اہم حصہ رپورٹ سے حذف کر دیا گیا تاکہ وزارت مذہبی امور کی بدنامی نہ ہوالبتہ کمیٹی انچار ج عالمگیر احمد خان نے رپورٹ میں لکھا ہے متعلقہ شعبہ تحقیق کے نظام کی نئے سرے سے مکمل اصلاح کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے آئندہ سال 2022 میں وزارت کے تحت سالانہ سیرت کانفرنس میں مقابلہ کتب و جرائد ، مقابلہ مقالہ جات وغیرہ کے لیے اہم تجاویز مرتب کی گئی ہیں اور ان پر عملد رآمد کا بھی کہا گیا ہے۔ سیکریٹری مذہبی امور نے اس تحقیقاتی رپورٹ کو سراہا اور تجاویز کے مطابق متعلقہ شعبہ کے ڈی جی مشاہد حسین کو ہدایات جاری کیں کہ آئندہ اس کے مطابق عمل در آمد کیا جائے۔

کمیٹی انچارج نے رپورٹ میں کھل کر تمام نقائص کو واضح کرنے کے ساتھ وزارت کے متعلقہ شعبہ کو جعلی مقالہ نگاروں سے محتاط اور جعلی مقالاجات کی تحقیقات کے لیے اہل افراد پر مشتمل نئی تحقیقاتی کمیٹی کو بھی قائم کرنے کا کہا ہے تاکہ آئندہ صحیح اہل علم کی علمی تحقیقات کی چوری کے معاملات کی روک تھام کی جا سکے گی۔

ڈاکٹر عامر طاسین کو وزارت مذہبی امور کی جانب سے انکوائری کے جواب سے متعلق لکھے خط میں نہ تو وزارت نےاپنی معذرت کا ذکر کیاہے اور نہ ہی رپورٹ کی نقل بھیجنے کی تصدیق کی گئی جس کے مطابق اندازہ ہوتا ہے کہ رپورٹ کے مطابق وزارت کے نہ تو کسی عملہ کے خلاف اور نہ ہی آسیہ اکرام کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی تاہم ڈاکٹر عامر طاسین کا مقالہ درست قرار دے دیا گیا ہے۔

Related Posts