کیا شوکت ترین کامیاب ہو نگے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 اس وقت ملک میں ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ کیا شوکت ترین کامیاب ہوجائینگے؟ وزیر اعظم عمران خان ایک نیا وزیر خزانہ لے کر آئے ہیں جو حکومت کے قائم ہونے کے بعد سے چوتھا وزیرخزانہ ہے ۔اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا شوکت ترین پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے میں کامیاب ہوں گے یا ہم آئی ایم ایف کی خواہش اور پالیسی معاملات کے تابع رہیں گے۔

شوکت ترین کے پیش رو حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے بہت سارے نکات شیئر کیے تھے اور شاید بعض مواقع پر وہ زیادہ آگے بڑھ گئے تھے۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر جن کو شوکت ترین برقرار رکھنا چاہتے ہیں ،انہوں نے بھی معیشت کو بحال کرنے کے لئے معاشی استحکام کے بارے میں ایک ہی نظریہ اپنایا لیکن شوکت ترین کا ایک مختلف موقف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کی بہت ساری پالیسیاں ضرورت سے زیادہ اور داخلی معاملات میں دخل اندازی ہیں۔

شوکت ترین یقینی طور پر پریشان ہیں کہ آئی ایم ایف بجلی کے نرخوں میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے افراط زر مزید بڑھ سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اب ہمیں معاشی نمو کی طرف جانا چاہئے ورنہ ہم اگلے چار سال تک خدا کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم معاشی استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے توکچھ بھی بہتر نہیں ہوگا ، نہ ہی محصول کی وصولی میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی معیشت کی بحالی اور ملازمت کے مواقع میسر آئیں گے۔

اس عمل کو شروع کرنے کے لئے وزیر خزانہ چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف بجلی کے نرخوں سے متعلق حالات کو سازگاربنائے۔

وہ چاہتے ہیں کہ کثیر الجہتی تنظیم پاکستان کے بارے میں ہمدردانہ رویہ اختیار کرے جب ہماری پہلے سے ہی ہماری کمزورمعیشت کوروناکا شکار ہوچکی ہے۔ شوکت ترین کو قلیل ، درمیانے اور طویل مدتی پالیسیوں پر کام کرنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور وہ عوام اور حکومت کے مابین ایک سازگار رشتہ چاہتے ہیں ۔

خود تجربہ کار بینکر ہونے کے ناطے شوکت ترین کا خیال ہے کہ بینکاری کے شعبے میں بہت ساری تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں تاہم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا اپنا بینک اس وقت مشکلات سے دوچار ہیں اور کچھ ہفتوں پہلے پریشان حال سلک بینک نے اسٹیٹ بینک سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی سالانہ رپورٹ اور آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کو حتمی شکل دینے کے لئے ایک اور توسیع کی اجازت دے۔ اب شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت کو سرمائے کو محفوظ بنانا چاہئے لیکن وہ ان تمام کاروباری اداروں کی نجکاری بھی کرنا چاہتے ہیں جن کا انتظام حکومت نہیں چلاسکتی۔

ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے شوکت ترین کو آئی ایم ایف کا سامنا کرنا پڑے گا اور جلد ہی تصادم کی توقع کی جاسکتی ہے۔ شاید وزیر اعظم عالمی قرض دہندہ کو دور رکھنے کے لئے شوکت ترین کو سامنے لائے ہیں۔شوکت ترین کاکہنا ہے کہ کہ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ معیشت کہاں جارہی ہے ،اس وقت معاشی اہداف حاصل کرنا مشکل کام ہوسکتا ہے لیکن یقینی طور پر ناممکن نہیں ہے،جہاز کے کپتان کو مضبوطی سے کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ جہاز آگے نہیں بڑھے گا۔

قوم کو مشکلات کا سامنا ہے اورمعاشی پریشانیوں کا اثر اب بھی برقرار ہے ،پھر بھی پی ٹی آئی کی حکومت بار بار کھلاڑیوں کو تجرباتی طور پرتبدیل کررہی ہے۔ ہماری معیشت کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لئے کون صحیح شخص ہوگا؟ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا واقعی شوکت ترین اس کام کے لئے صحیح آدمی ہیں۔

Related Posts