کیا پاکستان انڈیا کو دھول چٹا سکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیاست کے جھمیلے اور سیلاب کی پریشانی اپنی جگہ، مگر کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ملین ڈالر سوال ہے کہ کیا پاکستان اتوار کو بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے میچ میں فتح حاصل کر پائے گا؟ کیا پچھلے سال کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی یاد تازہو سکے گی، جس میں پاکستان نے انڈیا کو دس وکٹوں کی بدترین شکست سے دوچار کیا۔
کہتے ہیں کرکٹ بائی چانس ہے، اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، یہ کھیل ہی غیر متوقع ، ڈرامائی تبدیلیوں کا ہے۔ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ اس اعتبار سے زیادہ خطرناک اور غیر متوقع ہے کہ اس میں ایک یا دو کھلاڑی میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ ایک پاور ہٹر پندرہ بیس گیندوں پر چالیس پچاس رنز بنا کر میچ کا نتیجہ بدل دے گا، اسی طرح پاور پلے یا ڈیتھ اوورز میں کرائے گئے چند اوورز کیا سے کیا کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے میچ کے نتیجے سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ دونوں ٹیموں کی قوت اور کمزوریاں کیا ہیں؟
پاکستان کی سب سے بڑی قوت اس ٹیم کا تسلسل اور ٹاپ آرڈر بیٹنگ کے ساتھ کپتان کا لیڈنگ فرام فرنٹ کھیلنا ہے۔ اس وقت دنیا میں ایک آدھ ہی ایسا کپتان ہوگا جو بابراعظم جیسے تسلسل کے ساتھ غیر معمولی عمدہ کارکردگی دکھا رہا ہو۔ بابر اعظم اپنی اسی کارکردگی کی بنا پر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں نمبر ون ہیں، جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی وہ ٹاپ فائیو میں آ چکے ہیں۔ایک سال پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم نے سب سے زیادہ رنز بنائے، اس کے بعد سے وہ مسلسل رنز ہی کر رہے ہیں، آسٹریلیاکے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے میں کمال کر دکھایا، سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی رہی، ہالینڈ کے خلاف بھی ٹاپ سکورر رہے۔ یہ بڑا پلس پوائنٹ ہے۔ جو کپتان خود اچھا کھیل رہا ہو، وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ ٹیم کی قیادت کر سکتا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی بیٹنگ میں بابر اور رضوان کی اوپننگ جوڑی ہے جبکہ فخرزماں نمبر تین پر کھیلتے ہیں۔ ان تینوں کا ٹیم کی فتوحات میں بہت بڑا حصہ ہے۔ بابر اور رضوان کی اوپننگ جوڑی نے ورلڈ کپ میں خود کو منوایا۔ دونوں میں ہم آہنگی ہے اور وہ عمدگی کے ساتھ رنز بناتے ہیں۔ دونوں اوپنرز میں یہ خوبی ہے کہ وہ چاہیں تو بیس اوورز پورے کھیل کر ایک اینڈ محفوظ بنا سکتے ہیں۔ فخر زماں ون ڈاﺅن پر اپنی جارحانہ ہٹنگ کے ساتھ تیزی سے رنز بنا سکتا ہے۔ پچھلے سال ورلڈ کپ کے آغاز سے اب تک بابر اور رضوان کی جوڑی نے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی جانب سے بنائے گئے رنز کادو تہائی حصہ (67%)بنایا ہے، یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
کرکٹ کی مشہور ویب سائیٹ کرک انفو کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان مڈل آرڈر کو اگرچہ کھیلنے کے لئے بہت کم گیندیں بچتی ہیں، مگر انہوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیز سٹرائیک ریٹ (152%)سے رنز بنا رکھے ہیں۔ پاکستان کی مڈل آرڈر میں اچھے پاور ہٹر موجود ہیں۔ آصف علی، خوش دل شاہ ، محمد افتخار، حیدر علی میں سے جنہیں نمبر چار، پانچ، چھ پر کھلایا جائے،یہ سب تیزی سے رنز بنانے اور لمبے چھکے لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیںجبکہ لوئر بیٹنگ آرڈر میں شاداب خان اور محمد نواز بھی جارحانہ بیٹنگ کر سکتے ہیں۔شاداب خان نے حال ہی میںدباﺅ کے اندر کئی میچوں میں شانداراننگز کھیلی ہیں جبکہ محمد نواز آخری چند گیندوں پر چھکے چوکے لگا کر کئی میچ جتوا چکے ہیں۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ایک اور ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ایک ہی ٹیم خاصے عرصے سے کھیل رہی ہے، پچھلے دو برسوں سے کم وبیش یہی کھلاڑی کھلائے جا رہے ہیں، ہر ایک کو اپنا رول اچھی طرح معلوم ہے اور انہیں میچ پریکٹس کا مسئلہ بھی درپیش نہیں۔ بھارت نے اس کے برعکس پچھلے ایک سال کے دوران بہت سی تبدیلیاں کی ہیں ، ان کی دو تین مختلف ٹیمیں کھیلتی رہی ہیں۔ اس سے انہیں یہ فائدہ تو ہوا کہ آپشنز کئی موجود ہیں، لانگ ٹرم میں اس کی افادیت ہے، مگر یہ نقصان ہوا کہ ایشیا کپ میں جو فائنل سکواڈ کھیلے گا، اس میں اتنی مطابقت اور ہم آہنگی نہیں ہوگی۔
پاکستان کی باﺅلنگ بری نہیں،حارث رﺅف، نسیم شاہ، شاداب خان اور محمد نواز آٹو میٹک چوائس ہیں، پانچویں باﺅلر کے لئے توقع ہے کہ تجربہ کار حسن علی کو موقعہ دیا جائے گا جبکہ شاہنواز ڈھانی کی آپشن بھی موجود ہے۔ شاداب اور نوازسے توقع ہے کہ وہ امارات کی پچوں کا بہتر استعمال کریں گے۔ دونوں کو وہاں کئی سال پی ایس ایل کھیلنے کا تجربہ ہے، امارات میں پاکستان نے اپنی ٹیسٹ کرکٹ بھی خاصی کھیل رکھی ہے۔ نواز بھی امارات میںبہت بار کھیل چکے ہیں۔ خوشدل شاہ کو بطور پارٹ ٹائم سپنر کے استعمال کیا جا سکتا ہے یا محمد افتخار کو اگر چانس ملا تو ان سے بھی باﺅلنگ کرائی جا سکے گی۔
پاکستان کی فالٹ لائنزیعنی کمزوری اس کی طاقت میں پوشیدہ ہیں۔ بابر اور رضوان کی جوڑی زیادہ رنز بناتی ہے ، مگر پاور پلے یا پہلے دس اوورز میں ان کا سٹرائیک ریٹ زیادہ اچھا نہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی پاور ہٹر نہیں،لمبے چھکے مارنا ان کا نیچرل سٹائل نہیں۔ رضوان پھر بھی چھکا لگانے کی کوشش کرتے ہیں، بابر کا سٹائل محمد یوسف کی طرح ہے، گراﺅنڈڈ شاٹس کھیلنے کا۔ فخر کو بطور اوپنر نہیں کھلایا جائے گا، ورنہ فخر بطور اوپنر ان دونوں سے بہتر سٹرائیک ریٹ رکھتا ہے۔ اگر پاکستان پہلے کھیلے تو پھر مخالف ٹیم کو بڑا ہدف دینے کے لئے پہلے دس اوورز میں نوے یا سو رنز بنانے ضروری ہیں،تاکہ دو سو کے قریب ٹارگٹ مقرر کیا جائے۔ اس کے لئے ہماری ٹاپ آرڈر کو اپنے اندر جارحیت لانا ہوگی۔
شاہین شاہ آفریدی کا نہ ہونا بہت بڑا نقصان ہے۔ پاکستان کا سب سے عمدہ فاسٹ باﺅلر نہیں کھیل رہا۔ بھارت کے خلاف شاہین کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے ، اس کا نفسیاتی دباﺅ ان پر تھا ، جو اب ختم ہوچکا۔ وسیم جونئیر بھی اچھی فارم میں تھے، ان کی انجری بھی نقصان دہ ہے۔ حسن علی تجربہ کار تو ہیں، مگر ان کی حالیہ فارم اچھی نہیں۔ اگر اچھی ہوتی تو وہ سکواڈ میں پہلے سے ہوتے۔ شاہین کی عدم موجودگی میں حارث رﺅف اور نسیم شاہ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
پاکستانی مڈل آرڈر ہمیشہ کی طرح شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، کسی میچ میں اگر بابر جلدی آﺅٹ ہوجائیں تب مڈل آرڈر دباﺅ میں آ جاتا ہے۔ ایک اور فیکٹر بھارت کی سپن باﺅلنگ ہے۔ بھارتی سپنرز چاہل، جدیجہ، ایشون وغیرہ گیند کو اچھا ٹرن کرتے ہیں اور بیٹرز کو کھل کر نہیں کھیلنے دیتے۔ بھارتی سپن اٹیک کے خلاف پاکستانی بیٹرز کا حقیقی چیلنج ہوگا۔
پاکستان کے لئے ایک منفی بات یہ بھی ہے کہ بھارت کے دو فاسٹ باﺅلرزنئے ہیں، انہیں پہلے نہیں کھیلے ۔ ارشدیپ سنگھ ان کے اچھے لیفٹ آرم سوئنگ باﺅلر ہیں، یہ گیند کو بہت اچھا اندر لاتے ہیں اور باہر بھی نکالتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف اس نوجوان فاسٹ باﺅلر نے بہت عمدہ باﺅلنگ کرائی اور مین آف ٹورنامنٹ بنا۔ بابر اور رضوان کو ارشدیپ سنگھ کو احتیاط سے کھیلنا ہوگا۔ اسی طرح اویش خان کے خلاف کھیلنے کا بھی ہمیں تجربہ نہیں۔ اس نوجوان نے بھی حالیہ میچز میں اچھی باﺅلنگ کرائی، یہ ڈیتھ اوورز میں بھی کارگر ہے۔ بھونیشور کمار تجربہ کار پیسر ہیں،کئی سال سے بھارتی فرنٹ لائن باﺅلر ہیں۔
پاکستان اور بھارتی بیٹنگ میں نمایاں فرق بھارتی جارحیت ہے۔ ان کے بیٹرز بہت جارحانہ انداز سے کھیلتے ہیں، آئی پی ایل کی وجہ سے انہیں دنیا بھر کے باﺅلرز کو کھیلنے کا موقعہ ملتا ہے، یہ تجربہ ان کے کام آتا ہے ۔ کپتان روہت شرما بہت خطرناک ہیں، حارث رﺅف شارٹ آف لینتھ گیندیں زیادہ کراتے ہیں، روہت شرما شارٹ گیندوں پر بہت اچھے پل شاٹ کھیلتا ہے۔کے راہول بھی خطرناک ہٹر ہے، کوہلی پچھلے کچھ عرصے سے زیادہ رنز نہیں کر پایا، وہ یقیناً کوشش کرے گا کہ پاکستان کے خلاف پرفارم کرے۔
سوریا کمار یادو کو وسیم اکرم نے اپنا فیورٹ کھلاڑی قرار دیا ہے، یہ جارحانہ کھیلنے والا بیٹر ہے ، ویسٹ انڈیز کے خلاف اس سے اوپننگ بھی کرائی گئی، پاکستان کے خلاف شائد نمبر چار پر کھیلے۔ ریشبھ پنٹ یا دنیش کارتک میں سے ایک کھیلے گا، دونوں خطرناک ہٹر ہیں۔ ہاردیک پانڈیا اور رویندر جدیجہ دونوں تجربہ کار آل راﺅنڈر ہیں۔ اگر بھارت پہلے کھیلے اور پاکستانی باﺅلرز پاور پلے میں دباﺅ نہیں ڈال سکے تو بھارتی بیٹر یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ بڑا ہدف دے سکیں، دو سو کے قریب رنز ہو گئے تو ان کا تعاقب کرنا آسان نہیں ہوگا۔
پاکستانی ٹیم میں اگر شاہین شاہ اور وسیم جونئیر ہوتے تو یہ میچ برابر کا تھا۔ شاہین کی عدم موجودگی میں بھارت کو معمولی سی سبقت حاصل ہوگئی ہے، پچپن پنتالیس کا تناسب سمجھ لیں۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم میں چند ایسے کرشمہ ساز کھلاڑی ہیں جو کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ فتح کے لئے انہیں غیر معمولی کارکردگی دکھانا ہوگی۔ جو کارکردگی ہالینڈ کے خلاف دکھائی گئی، اگر ویسی بھارت کے خلاف نظر آئی تو پھر سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Related Posts