سندھ کے میڈیکل کالج میں طالبات سے زیادتی کے واقعات،حکومت کب نوٹس لے گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Will govt take action against harassment of female students in medical colleges?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور بیشتر کیسز میں خواتین اپنے ساتھ زیادتی پر آواز اٹھانے سے گریز کرتی ہیں تاہم اس سے قطع نظر پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سندھ کے میڈیکل کالجز میں طالبات کے ساتھ تشدد اور ہراسانی کے واقعات میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔

گزشتہ روز پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار وومن کی ایم بی بی ایس کے آخری سال کی طالبہ پروین رند کے ساتھ جنسی ہراسانی اور تشدد کا معاملہ سوشل میڈیا کی زینت بنا۔

میڈیکل فائنل ایئر کی طالبہ پروین رند نے حال ہی میں سندھ کی وزیر صحت کے یونیورسٹی کے دورے کے دوران نواب شاہ میں واقع ہاسٹل کے ڈائریکٹر کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

پروین رند بلوچ کادعویٰ
پروین رند بلوچ نے دعویٰ کیا کہ پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار وومن کے ڈائریکٹرغلام مصطفیٰ راجپوت نے ان پر تشدد کیا اور جنسی طور پر ہراساں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر کی جانب سے انہیں چار سال تک تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہاسٹل کی ایک وارڈن نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی اور ایک کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا۔

پروین رند کا کہنا ہے کہ انہوں نے کافی تکلیفیں برداشت کی ہیں لیکن اب وہ اپنی جان اور عزت کے تحفظ کے لیے میڈیا کے سامنے یہ سب بتا رہی ہیں۔ ان کے مطابق یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کوئی لڑکی محفوظ نہیں تھی۔

ایف آئی آر
پروین رند نے تشدد اور ہراسانی میں مبینہ طور پر ملوث لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی اور پولیس نے فوراً تفتیش شروع کر دی ہے۔

واقعہ پر رد عمل
یونیورسٹی کے رجسٹرار نے پروین رند کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ رجسٹرار نے کہانی کا دوسرا رخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلباء اور ہاؤس آفیسرز کے درمیان ہاسٹل کے کمرے تبدیل کرنا چاہتی تھی لیکن پروین رند نے دوسرے کمرے میں شفٹ ہونے سے انکار کردیاجس کے بعد انہوں نے بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔

سندھ میں پچھلے کیسز
سندھ کے میڈیکل کالجز میں ایسا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا، گزشتہ سال نومبر میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ میں چوتھے سال کی طالبہ نوشین کاظمی اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی۔نوشین کاظمی کی موت دم گھٹنے سے ہوئی تاہم طالبہ کے خلاف تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ڈاکٹر نمرتا کماری کا کیس
نوشین کاظمی سے پہلے 15 ستمبر 2019 کو نیشنل کالج کے گرلز ہاسٹل میں فائنل ایئر کی طالبہ ڈاکٹر نمرتا کماری کی لاش بھی برآمد ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نمرتا کماری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انہیں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ مقتولہ کے بھائی نے بتایا کہ وہ اپنی کلاس کے ٹاپرز میں سے ایک تھی اور امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔

قانون کیا کہتاہے؟
پاکستان کا قانون خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے، کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 میں کہا گیا ہے کہ ہر تنظیم متعلقہ شکایات کی تحقیقات کے لیے قانون کے نفاذ کے 30 دنوں کے اندر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے گی۔

قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی میں تین ارکان شامل ہوں گے جن میں سے ایک خاتون کا ہونا ضروری ہے تاہم آٹھ سال گزرنے کے باوجود سندھ بھر کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں ابھی تک اس قانون کا نفاذ نظر نہیں آرہا ہے۔

سندھ حکومت اور اقدامات
سندھ بھر میں کسی بھی سرکاری گرلز سیکنڈری اسکول یا خواتین کے کالجوں میں ایک بھی اینٹی ہراسمنٹ بورڈ کام نہیں کر رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک کمیٹی بنا کر ایسے معاملات کو دیکھے ، جنسی ہراسانی اور تشدد سے بچنے کے لیے صوبے بھر میں آگاہی پروگرام ہونے چاہئیں جبکہ ایسے معاملے پر خصوصی طور پر ہر ادارے پر خصوصی نگاہ رکھنی چاہیے۔

Related Posts