گھر سے غائب شخص کو خاندان سے ملوانے والے مدرسے پر الزامات کی حقیقت کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

نیکی وبال جان بن گئی، کراچی کے ایک دینی مدرسے کی جانب سے 45 سال سے گھر سے غائب شخص کو اس کے اہل خانہ سے ملوانے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے مدرسے کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ دن کراچی کے معروف دینی مدرسہ جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کی کوششوں سے اس مدرسے میں 25 سال سے مقیم ضلع اپر چترال سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا گیا تھا، جو 45 سال سے اپنے گھر سے غائب تھا۔

ضلع اپر چترال کے دور افتادہ علاقہ لون سے تعلق رکھنے والا بابا سلطان 45 سال پہلے 1978 میں اپنی شادی کے صرف ڈیڑھ سال بعد دو ماہ کا بچہ بیوی کی گود میں چھوڑ کر روزگار کیلئے کراچی آگیا، یہاں آکر اس کی زندگی نے نیا موڑ مڑ لیا۔

یہ بھی پڑھیں:

کراچی کے مدرسے نے 45 سال سے لا پتا چترالی بابا کو خاندان سے ملوا دیا

کراچی آکر کچھ عرصے بعد سلطان نے گھر والوں اور کمیونٹی سے رابطہ منقطع کرلیا اور رفتہ رفتہ یہ انقطاع اور سالوں پر محیط ہوگیا۔ 20 سال کراچی کے مختلف علاقوں میں رہنے کے بعد ان کا اتفاق سے جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی میں آنا جانا شروع ہوگیا۔

مدرسے کی انتظامیہ کو سلطان نے اپنی کہانی بتائی کہ وہ چترال کے دور دراز علاقے سے ہے، اس کی بیوی انتقال کر چکی ہے اور خاندان میں کوئی موجود نہیں، مدرسے کی انتظامیہ نے اس کی کہانی سن کر نیکی کے جذبے سے انہیں مدرسے میں قیام، طعام کی فری سہولت پیش کر دی۔

مدرسے کی انتظامیہ کے مطابق بابا سلطان کام کسی دوسری جگہ کرتے تھے، مگر رہنے کیلئے جامعہ ربانیہ آتے تھے۔ مدرسے کی انتظامیہ نے ان کیلئے الگ کمرہ اور مہتمم نے ان کا خصوصی خیال رکھنے کیلئے اپنے بھائی کو خدمت پر مامور کردیا۔

گزشتہ ہفتے اچانک بابا سلطان کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہوجانے پر مدرسے کے مہتمم مولانا ادریس ربانی نے یہ سوچ کر کہ خدا نخواستہ بابا سلطان کو کچھ ہوگیا تو کم از کم اس کی میت تو اپنوں کے پاس پہنچے، بابا جی کے رشتہ داروں کی تلاش شروع کردی۔

مدرسے کی انتظامیہ کی اس تلاش کے نتیجے میں بابا جی کے اہل خانہ سامنے آئے اور یوں انہیں ان کے سپرد کر دیا گیا۔ بابا سلطان اب اپنے گاؤں لون میں اپنے اکلوتے بیٹے، بیوی اور بھائیوں کے درمیان ہیں۔

بابا سلطان کی گھر واپسی کی کہانی ایم ایم نیوز کے پلیٹ فارم سے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بعض سوشل میڈیا صارفین نے مدرسے کی انتظامیہ کے اس نیک عمل میں مین میخ نکال کر اسے متنازع بنانے کی کوشش کی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر بعض صارفین نے الزام عائد کیا کہ مدرسے کی انتظامیہ نے ساری زندگی بابا سلطان سے خدمت لے کر جب وہ ناکارہ ہوگیا تو ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ مدرسے کی انتظامیہ اتنے عرصے تک کیوں خاموش تھی؟

کچھ سوشل میڈیا کھاتوں سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ بابا سلطان کو مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے پنشن اور دیگر حقوق دیے جائیں اور مدرسے کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ان الزامات کے حوالے سے ایم ایم نیوز نے جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کے مہتمم مولانا ادریس  ربانی سے رابطہ کیا اور وضاحت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ بابا سلطان ایک دن کیلئے بھی ہمارے ہاں ملازم نہیں رہے۔

مولانا ادریس ربانی کا کہنا تھا کہ ہم نے مکمل نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ بابا سلطان کی خدمت کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پچیس سال کے عرصے میں ہم نے بابا سلطان سے کبھی ایک پیالی تک نہیں دھلوائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ان کی خدمت پر مامور کیا تھا اور ان کا کھانا بھی اپنے گھر سے لگوایا تھا۔ انہوں نے الزامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپیل کی کہ تبصرے کرنے سے پہلے تحقیق کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بابا سلطان اور ان کے رشتہ داروں سے بھی حقائق معلوم کیے جا سکتے ہیں۔

جامعہ ربانیہ کے اس اقدام پر جہاں کچھ لوگوں نے بلا تحقیق الزامات عائد کیے اور تنقید کی ہے وہاں بہت سے لوگوں نے جامعہ ربانیہ کی تحسین بھی کی ہے۔

معروف بلاگر علی ہلال نے اپنے مخصوص انداز میں جامعہ ربانیہ اور مولانا ادریس ربانی کے اس عمل کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

اس کے علاوہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے الزام تراشی کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے انہیں بغیر تحقیق کے تبصروں سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔

Related Posts