کراچی کے مدرسے نے 45 سال سے لا پتا چترالی بابا کو خاندان سے ملوا دیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گھر سے 45 سال سے غائب ضلع چترال کے 73 سالہ باشندے بابا سلطان کو کراچی کی معروف دینی درسگاہ جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کے تعاون سے ان کے اہل خانہ کے حوالے کردیا گیا، 45 سال بعد بابا سلطان کے ملنے کی اطلاع پر ان کے گاؤں میں جشن کا سماں ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال کے علاقے لون سے تعلق رکھنے والے بابا سلطان 1978 میں اپنی شادی کے ڈیڑھ سال بعد دو ماہ کے بچے اور بیوی کو چھوڑ کر نوکری کی نیت سے کراچی آئے اور پھر اپنے خاندان کو واپس پلٹ کر نہیں دیکھا۔

بابا سلطان کراچی میں محنت مزدوری کے ساتھ یہیں بس گئے اور انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنے بیوی بچے اور پورے خاندان سے تعلق اور ہر قسم کا رابطہ منقطع کر دیا۔

بابا جی کے خاندان والوں نے کچھ عرصہ تک ان کے رابطوں کا انتظآر کے بعد ان کی تلاش شروع کردی اور ہر طرف ڈھونڈنے کے باجود ان کا کوئی سراغ نہ ملنے پر مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔

یہ بھی پڑھیں:

سینکڑوں یہودی آباد کاروں کا مسجد اقصیٰ پر دھاوا، حالات کشیدہ

اس دوران بابا سلطان کے بھائیوں کا بھی ایک ایک کرکے انتقال ہوگیا، تاہم ان کی بیوی نے بابا جی کے ملنے کی آس نہیں چھوڑی اور شوہر کی واپس آمد کے انتظار کے ساتھ بچے کو شوہر کی امانت کی حیثیت سے پالا اور پروان چڑھایا۔

اس عرصے کے دوران بابا سلطان کراچی میں مختلف علاقوں میں محنت مزدوری کرتے کرتے ایک دن قصبہ کالونی پہنچے، نماز کا وقت ہوا تو قریبی مسجد چلے گئے۔ یہ ملک کی قدیم اور معروف دینی درسگاہ جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کی مسجد تھی۔

بابا جی کہیں اور مزودری کرتے تھے، جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کی انتظامیہ کا حسن سلوک اور اچھا برتاؤ دیکھ کر انہوں نے یہاں مسلسل آنا جانا شروع کر دیا اور بالآخر یہی اگلے پچیس سال تک کیلئے کراچی میں ان کا آخری مسکن بن گیا۔

جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کے جوانسال اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار مہتمم مولانا ادریس ربانی نے ایم ایم نیوز کو بتایا کہ ہم نے بابا جی سے ان کا حال دریافت کرنے کے بعد انہیں پیشکش کی کہ وہ جامعہ ربانیہ میں جب تک اور جتنا عرصہ چاہیں مہمان کی حیثیت رہیں، ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

مولانا ادریس ربانی کے حسن سلوک اور بندہ پروری نے بابا سلطان چترالی کا دل ایسے جیت لیا کہ انہوں نے جامعہ ربانیہ کو اپنے گھر کے طور پر قبول کرلیا۔ یہاں ان کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ مولانا ادریس ربانی نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا جمیل ربانی کو بطور خاص بابا سلطان کی خدمت اور خیال رکھنے کیلئے مقرر کیا۔

یوں پچیس سال تک بابا سلطان کی بہترین دیکھ بھال کی گئی اور انہیں جامعہ ربانیہ میں اپنی مرضی سے رہنے کی مکمل آزادی دی گئی۔

مولانا ادریس ربانی بتاتے ہیں کہ بابا جی اس دوران بیمار ہوجاتے تو ان کا میری خصوصی نگرانی میں علاج معالجہ ہوتا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان کا ضعف بڑھ گیا تو ہمیں فکر ہونے لگی کہ خدا نخواستہ انہیں کچھ ہوگیا تو یہ اچھی بات نہیں ہوگی کہ وہ گمنامی میں دفنا دیے جائیں۔

مولانا ادریس ربانی کے بقول گزشتہ ہفتے بابا جی کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہوگئی تو ہم نے ان کے علاج کے ساتھ یہ کھوج لگانا بھی شروع کر دیا کہ ان کی فیملی سے کسی طرح رابطہ ہوجائے۔

باباجی سے گھر کا پتا اور اہل خانہ کے نام لیکر تلاش شروع کردی گئی اور بالآخر کراچی میں مقیم سوشل ایکٹوسٹ محمد ابراہیم چترالی کی مدد سے کراچی میں ہی باباجی کے ایک بھتیجے کا سراغ مل گیا۔

رابطہ ہونے اور بابا جی سے رشتے کی تصدیق کے بعد دونوں چچا بھیتجا کی ملاقات کروائی گئی تو انتہائی جذباتی اور رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ بابا جی کے بھتیجے جن کی پیدائش بابا جی کے غائب ہونے کے بہت عرصے بعد ہوئی تھی، نے اپنے گھر میں بابا جی سے وابستہ غم ہی دیکھا تھا، ان کے غائب ہونے کے 45 سال بعد وہ تصوراتی پس منظر میں چچا کا تعارف لیے جب بابا جی کے گلے لگے تو جذبات کا سمندر آنکھوں سے آنسو بن کر رواں ہوا۔

بابا جی کے ملنے کی خوشخبری سے اپر چترال میں واقع بابا جی کے گاؤں لون میں جشن کا منظر ہے۔ بابا جی کی وفادار رفیقہ حیات کا انتظار آخر کار ختم ہوگیا اور وہ جیتے جی جلد اپنے شوہر کو بوڑھی آنکھوں مگر جوان و تازہ جذبات کے ساتھ دوبارہ دیکھ لیں گی۔

ایک طرف جہاں بابا جی کے گاؤں میں جشن کا سماں ہے، وہاں دوسری طرف بابا جی کی جدائی کے سوگ میں جامعہ ربانیہ کے در و دیوار اداس ہیں جن کے ساتھ بابا جی کی پچیس سال تک رفاقت رہی ہے۔ 

اس کے ساتھ ہی جامعہ ربانیہ کے تمام طلبہ، اساتذہ اور دیگر عملہ بھی سوگ کی کیفیت میں ہے تاہم وہ اس بات پر خوش ہیں کہ بابا سلطان کو ان کا بچھڑا خاندان واپس مل رہا ہے۔

بابا جی کو خوشی اور اداسی کے ملے جلے جذبات سے بھرپور فضا میں ایک سادہ مگر پر وقار تقریب میں نہ صرف ان کے بھتیجے کے حوالے  کردیا گیا۔ اس موقع پر اساتذہ اور طلبہ نے بابا جی سے خصوصی طور پر دعائیں لیں۔

جامعہ ربانیہ کے جوانسال اور خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار مہتمم مولانا ادریس ربانی یقینا قابل صد تحسین ہیں کہ انہوں نے خاندان سے بچھڑے ایک لا وارث شخص کی بھرپور دیکھ بھال کی اور خصوصی دلچسپی اور خلوص سے ان کے خاندان کو ڈھونڈ نکال کر اس سے ملوانے کا ذریعہ بنے۔

Related Posts