دنیا خاموش، برما کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو امریکی میڈیا

اقوام متحدہ نے اطلاع دی ہے کہ 45,000 سے زیادہ اقلیتی روہنگیا تنازعات سے متاثرہ میانمار کی راکھین ریاست میں بڑھتی ہوئی لڑائی اور مسلمانوں کیخلاف کارروائیوں کے تازہ سلسلے کے باعث علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کی ترجمان الزبتھ تھروسل نے جنیوا میں میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں بوتھیڈانگ اور مونگ ڈاؤ ٹاؤن شپ میں ہونے والی لڑائی سے دسیوں ہزار شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 45,000 روہنگیا جان بچانے کیلئے بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب دریائے ناف کے ایک علاقے میں فرار ہو گئے ہیں۔

نومبر میں اراکان آرمی (AA) کی طرف سے حکمران جنتا کی افواج پر حملے کے بعد سے جھڑپوں نے راکھین (مسلم اکثریتی ریاست اراکان کا تبدیل شدہ نام) کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جس سے 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد سے جاری جنگ بندی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

اے اے کا کہنا ہے کہ وہ ریاست میں روہنگیا نسل کی خودمختاری کے لیے لڑ رہی ہے، جو کہ ستائی ہوئی روہنگیا مسلم اقلیت کے تقریباً 600,000 ارکان کا گھر بھی ہے۔

فوج کے کریک ڈاؤن کے دوران 2017 میں لاکھوں روہنگیا راکھین سے فرار ہو گئے جو اب اقوام متحدہ کی نسل کشی کی عدالت کا مقدمہ ہے۔

اقوام متحدہ ترجمان کے مطابق یک ملین سے زیادہ روہنگیا پہلے ہی بنگلہ دیش میں موجود ہیں، جو ماضی میں یہاں سے ہجرت پر مجبور کیے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ وولکر ترک بنگلہ دیش اور دیگر ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق پناہ کی تلاش کرنے والوں کو موثر تحفظ فراہم کریں اور روہنگیا پناہ گزینوں کی میزبانی میں بنگلہ دیش کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کو یقینی بنائیں۔

تھروسل نے راکھین میں “تشدد کے سنگین پھیلاؤ کے واضح خطرات” سے خبردار کیا۔ انہوں نے مونگ ڈاؤ شہر میں روہنگیا کی نسل کشی کے آغاز کی طرف اشارہ کیا، جہاں برمی فوج کی چوکیاں ہیں اور جہاں ایک بڑی روہنگیا برادری رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس خوفناک صورتحال میں عام شہری ایک بار پھر مارے جا رہے ہیں، ان کی املاک کو تباہ اور لوٹا جا رہا ہے، ان کے تحفظ اور سلامتی کے مطالبات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان ایک بار پھر خوفناک حالات میں اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہیں۔

دریں اثنا پاکستان میں مقیم روہنگیا برادری بھی میانمار میں جاری خونی صورتحال اور اپنے پیاروں کی نسل کشی کے تازہ سلسلے کے باعث شدید کرب اور دکھ سے گزر رہی ہے۔

پاکستان میں مقیم اس برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمارا دل پہلے ہی غزہ کی صورتحال پر خون کے آنسو رو رہا ہے، اب ایسے میں میمانما کی بدھسٹ دہشت گرد آرمی نے ہماری برادری کے بے یار و مدد گار مسلمانوں کا لہو بہانا شروع کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ اور فلسطین کی صورتحال تو پھر بھی رپورٹ ہو رہی ہے، مگر اراکان (راکھین) میں جاری روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات پر نہ عالمی میڈیا اور نہ پاکستانی میڈیا کوئی توجہ دے رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حالات انتہائی سنگین ہیں اور ان کا ایک فیصد بھی دنیا کے سامنے نہیں آ رہا ہے۔

پاکستان سے ملائیشیا جاکر مقیم روہنگیا مسلم خاتون اسکالر اور سوشل ایکٹوسٹ صائمہ تسمیر بھی میانمار کی مسلم اکثریتی ریاست راکھین (رخائن، یا اراکان) کے اپنے ہم نسل روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم کے تازہ سلسلے پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔

صائمہ تسمیر نے اپیل کی ہے کہ مسلم دنیا روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر بھی توجہ دے، ورنہ دنیا کو فلسطین کے مسئلے پر متوجہ دیکھ کر میانمار کی ظالم بدھسٹ آرمی روہنگیا مسلمانوں کا مکمل صفایا کر دے گی۔

صائمہ تسمیر کے اپنے کئی رشتہ دار حالیہ پر تشدد واقعات سے شدید متاثر ہیں۔ ایک پوسٹ میں وہ تفصیل سے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے رشتہ داروں کے ساتھ برمی آرمی نے بدترین ظلم کیا اور ان کے گھروں کو راکٹ مار کر تباہ کر دیا۔

Related Posts