اسرائیلی وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والے کریم خان کون ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو فرانس 24

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان کا نام بین الاقوامی منظر نامے پر اس وقت آیا ہے جب انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کے خلاف نسل کشی کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست دی۔

کریم خان کا نام ایک بار پھر اس وقت زیادہ نمایاں ہو گیا جب متعدد امریکی ارکان کانگریس نے کریم خان کی سربراہی میں عالمی فوجداری عدالت کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایک مسودہ قرار داد پیش کی اور کریم خان کو دھمکیاں دیں۔

کریم خان ہیں کون؟

سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کو پریشان کرنے والے کریم خان ہیں کون؟

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق کریم اسد خان ایک پاکستانی نژاد برطانوی وکیل ہین جو ایک ہی وقت میں پرسکون اور سخت مزاج ہیں۔ ان کے مزاج کو پرکھتے ہوئے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے نفاذ کے لیے عجلت کے قائل ہیں۔ انہوں نے فوجداری عدالت کا چہرہ ہی بدل دیا، جو ہمیشہ فیصلے کرنے سے محتاط انداز میں اقدامات کے لیے مشہور رہی ہے۔

تاہم پچھلے سال یوکرین میں اور اب غزہ میں جنگی رہ نماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کے لیےان کے جاری کردہ عجلت پرمبنی فیصلے خان کی دلیری اور اندھے پن دونوں کا پتا دیتے ہیں۔ وہ بغیر کسی خوف اور حمایت کے اور دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلہ کرکے ایک نئے تنازعے میں گھر گئے ہیں۔

“فوج داری عدالت پوتین جیسے ٹھگوں کے لیےبنائی گئی تھی۔‘‘

اگرچہ اس نے چند روز قبل ’سی این این‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ انہیں “بے ہودہ” دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے اس وقت ایک بہت بڑے تعجب کا اظہار کیا جب انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک سینئر بین الاقوامی رہنما نے انہیں بتایا تھا کہ “فوجداری عدالت افریقی ممالک اور ولادی میر پوتین جیسے ٹھگوں کی خاطر قائم کی گئی تھی۔”

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیل کے خلاف فیصلہ سنانے پر خوف زدہ کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں اسرائیل اور حماس کے رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد خان کو وسیع شہرت ملی اور ان کے فیصلوں نے پورے بین الاقوامی حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تو اس پر واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ امریکی قانون سازوں کے ساتھ عدالت اور اس کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے کے امکان پر بات کرنے کے لیے کام کریں گے۔ تاہم خان نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ وہ ان دھمکیوں کی پروا نہیں کریں گے۔

50 سالہ کریم خان کو 2021ء میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کا پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا تھا۔

ایک خفیہ رائے شماری میں برطانیہ نے آئرلینڈ، ہسپانیہ اور اٹلی کے امیدواروں کو 72 ممالک کی حمایت کے ساتھ ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کریم خان کو عدالت کا پراسیکیوٹر منتخب کرا دیا تھا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 62 ممالک کی حمایت حاصل کی تھی۔

کنگز کالج لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرکے خان نے بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق میں ابتدائی دلچسپی ظاہر کی۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر بننے کے بعد اپنے پہلے شائع شدہ انٹرویو میں شوخ وکیل نے کاؤنسل میگزین کو بتایا کہ ٹیلی ویژن پر بلقان جنگ کی ہولناکیوں کو دیکھ کر ان میں سابق یوگوسلاویہ کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل میں خدمات انجام دینے کی خواہش پیدا ہوئی۔

وہ ’آئی سی سی‘ کے کردار کے لیے اصل شارٹ لسٹ میں شامل نہیں تھے، لیکن کینیا کی حکومت کے اصرار پر انھیں جزوی طور پر اس وقت شامل کیا گیا جب انھوں نے کینیا کے نائب صدر ولیم روٹو کے دفاعی وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں جب ان پر 2007 کے انتخابات کے بعد انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا گیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

فوجداری عدالت نے ان الزامات کو 2016ء میں اس وقت خارج کر دیا تھا جسے “گواہوں کی مداخلت اور ناقابل برداشت سیاسی مداخلت کے پریشان کن واقعہ” کے طور پر بیان کیا گیا تھا، جبکہ ایک اہم گواہ دسمبر 2014 میں مارا گیا تھا۔

آئی سی سی کے انتخابات سے پہلے کریم خان نے ایک کھلے خط میں اس معاملے پر توجہ دی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح کسی فرد کو گواہوں کے تحفظ کے تحت رکھا گیا تھا اور پھر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اس نے دھمکی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

تاہم کچھ لوگوں نے ’آئی سی سی‘ کے کردار کے لیے ان کی صلاحیت پر سوال اٹھایا۔ کیوں کہ اس لیے کہ انھوں نے لائبیریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر کا دفاع کیا تھا جنہیں سیرا لیون کی ایک خصوصی عدالت میں جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ایک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے مبینہ جنگی جرائم کی پیروی کرنے پر خان کے اصرار کے باعث انہیں روس نے اشتہاری قرار دیا اور حال ہی میں غزہ میں ان کی تحقیقات پر مقدمہ چلانے کی وجہ سے انہیں امریکی کانگریس میں ریپبلکن سینیٹرز نے دھمکی دی تھی۔

Related Posts