تحریک عدم اعتماد کیا ہے؟ عمران خان چلے گئے تو حکومت کون چلائے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تحریک عدم اعتماد کیا ہے؟ عمران خان چلے گئے تو حکومت کون چلائے گا؟
تحریک عدم اعتماد کیا ہے؟ عمران خان چلے گئے تو حکومت کون چلائے گا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک بھر میں تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ وزیر اعظم اسی سلسلے میں آج کراچی کا دورہ کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی آج ہی عدم اعتماد کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے جماعتِ اسلامی کے امیر سے ملاقات کی۔

متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی ہے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے جمع کرائی گئی ریکوزیشن سے متعلق رہنما پیپلز پارٹی نوید قمر کاکہنا ہے کہ 100 سے زائد اراکین قومی اسمبلی کے دستخط کے ساتھ ریکوزیشن جمع کرائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

کیا اپوزیشن حکومتی ارکان کی مدد کے بغیر حکومت گراسکتی ہے؟

تحریک عدم اعتماد
اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیےاپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں،اسپیکر قومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پر 7 روز کے اندر کارروائی کرنا ہوگی۔حکومت کواتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے، جن میں پی ٹی آئی کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔دوسری جانب حزب اختلاف کے کل ارکان کی تعداد 162 ہے، ان میں مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 ، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔

اپوزیشن کا دعویٰ
متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے،قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے 161 ممبران ہیں اور اپوزیشن نے تحریک انصاف کے 28 اور ایک اتحادی پارٹی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ کے ساتھ تحریک انصاف کے 16، پیپلزپارٹی کے ساتھ 4 اور جے یو آئی کے ساتھ 2 حکومتی اراکین ہیں ،پی ٹی آئی کے مزید 6 ارکان قومی اسمبلی ن لیگ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے 197 سے 202 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے 28 ممبران کے نام وزیراعظم کے علم میں ہیں۔

عمران خان کا اعتماد
وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہے، 2028 تک کچھ نہیں ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی، مزید تگڑی ہو کر واپس آئے گی، فوج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے، نومبر بہت دور ہے،جب وقت آئے گاتو فیصلہ کریں گے۔وزیراعظم عمران خان نے حکومت کے حمایتی یوٹیوبرز سے ملاقات میں کہا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی، مزید تگڑی ہو کر آئے گی، میں خوش ہوں کہ یہ ان کی آخری واردات ہوگی، ہم ان کو ایسی شکست دیں گے کہ یہ 2028 تک نہیں اٹھ سکیں گے۔

ماضی میں عدم اعتماد کی تحاریک
اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں قومی اسمبلی میں 172ووٹ پڑگئے تو عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونا پڑے گا۔اس سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو اور شوکت عزیز کیخلاف تحاریک ناکام ہوچکی ہیں ۔

ووٹنگ کب ہوگی
آئین کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس پارلیمنٹ بلڈنگ سے ہٹ کر کہیں بھی ہو سکتا ہے،یہ ضروری نہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس پارلیمنٹ کی عمارت ہی میں ہو۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد وزیر اعظم کو اسمبلی توڑنے کا اختیار نہیں رہتا۔

اسپیکر قومی اسمبلی قوانین کے مطابق اپوزیشن کی ریکوزیشن پر 14 روز میں اجلاس بلانے کے پابند ہیں اور اپوزیشن کی ریکوزیشن کے تحت اجلاس بلانے کی حد 14 روز یعنی 22 مارچ بنتی ہے۔اجلاس بلانے اور تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے 3 سے7 روز کے درمیان ووٹنگ کرانا ہوگی۔

وزیر اعظم کے خلاف تحریک میں اوپن بیلیٹنگ جبکہ اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کے خلاف خفیہ رائے شماری کی جاتی ہے۔

حکومت کون چلائے گا
ماہرین کے مطابق عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں صدر پاکستان چیف ایگزیکٹو کے چناؤپر سابق وزیر اعظم کو عبوری طور پر کام کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اگر عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے تو حکومت ختم ہوجائے گی تاہم اسمبلی اپنی جگہ موجود رہے گی اور ایوان میں نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ طور پر شہبازشریف وزیراعظم کے امید وار ہونگے تاہم پاکستان کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے جب وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا ہو ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان میں منتخب وزیراعظم کو ایک آئینی طریقے سے گھر بھیجا جاسکے گا یا عمران خان اپوزیشن کو ناکامی سے دوچار کرکے مزید مضبوط ہوکر سامنے آئینگے؟

Related Posts